Monday 25 January 2016

سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم ۔ 63 سال - ایک نظر میں

   حیاتِ نبوی (صلی اللہ علیہ وسلم)   63 سال  - ایک نظر میں
 مفتی راشد ڈسکوی   - جامعہ فاروقیہ کراچی

 ReadOnline - image           Download- pdf

۶۳ سالہ حیاتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک جھلک


از: مفتی محمد راشد ڈسکویرفیق شعبہٴ تصنیف وتالیف واستاذ جامعہ فاروقیہ کراچی

سیدنا ومولانا حضرت محمد مصطفی ، احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت پیر کے روز صبح صادق کے وقت ربیع الاول ،عام الفیل ۔بمطابق اپریل ۵۷۱ ءمیں ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے چند مہینے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد ِمحترم ”عبد اللہ “کی وفات ہو گئی، آپ کے دادا جان ”عبد المطلب“ کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسمِ گرامی ”محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب“ ہے ،اور آپ کی والدہ محترمہ ”آمنہ کی طرف سے آپ کا نام ”احمد“ تجویز ہوا۔ ابولہب کی آزاد کر دہ باندی ”ثویبہ رضی اللہ عنہا“کے چند دن دودھ پلانے کے بعدشرفاء ِقریش کی عادت کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ”حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا “کی رضاعت میں دے کر مضافاتِ مکہ میں بھیج دیا ، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم آٹھ دن کے تھے۔
ولادت کے چوتھے سال شقِ صدر کا واقعہ پیش آیا، موٴرخین لکھتے ہیں کہ شق صدر کا واقعہ چار بار پیش آیا، ایک: زمانہ طفولیت میں حضرت حلیمہ سعدیہ کے پاس، دوسری بار دس سال کی عمر میں پیش آیا۔ (فتح الباری: ۱۳/۴۸۱)تیسری بار: واقعہٴ بعثت کے وقت پیش آیا۔ (مسند أبي داوٴد الطیالسي، ص: ۲۱۵) اور چوتھی بار : واقعہٴ معراج کے موقع پر۔ (صحیح البخاری، رقم الحدیث: ۳۴۹)۔ بعض نے پانچویں بار کا شق صدر بھی ذکر کیا ہے؛ لیکن وہ صحیح قول کے مطابق ثابت نہیں ہے۔ (سیرة مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم: ۱/۷۵) آپ تقریبا چھ سال تک ”حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا “کی پرورش میں رہے۔
ولادت کے چھٹے سال آپ کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ نے اپنے میکے میں ایک ماہ کا قیام کیا، وہاں سے واپسی پر مقام ابواء میں ان کا انتقال ہوا اور وہیں مدفون ہوئیں۔(شرح المواہب للزرقانی: ۱/۱۶۰)
ولادت کے ساتویں سال آپ اپنے دادا عبد المطلب کی تربیت میں پروان چڑھتے رہے۔
اور ولادت کے آٹھویں سال ”دادا محترم “کا انتقال ہو گیا،دادا کے انتقال کے بعد آپ اپنے چچا ”ابو طالب“ کی پرورش میں آ گئے۔ (طبقات ابن سعد: ۱/ ۷۴)
اور ولادت کے بارھویں سال آپ نے اپنے چچا کے ساتھ شام کے پہلے تجارتی سفر میں شرکت کی، اسی سفر میں بحیرہ راہب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی پیش گوئی بھی دی۔ (الخصائص الکبری: ۱/ ۸۴)
اور ولادت کے چودہویں سال یا پندرہویں سال اور بعض روایات کے مطابق بیسویں سال عربوں کی مشہور لڑائی ”حرب الفجار“ پیش آئی، اس جنگ میں آپ اپنے بعض چچاوٴں کے اصرار پر شریک تو ہوئے؛ لیکن، قتال میں حصہ نہیں لیا۔ (روض الانف: ۱/۱۲۰)
اور ولادت کے سولہویں سال میں آپ نے اہل مکہ کے (پانچ خاندانی معاہدے) ”حِلف الفضول“ نامی معاہدے میں شرکت کی۔
اور ولادت کے پچیسویں سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا مال لے کر تجارت کا دوسرا سفر شام کی طرف کیا ، سفر سے واپسی پر اس سفر میں پیش آنے والے واقعات ، تجارتی نفع اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق وواقعات سن کر دو مہینہ اور پچیس روز کے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو نکاح کا پیغام بھجوا کر آپ سے نکاح کر لیا۔(طبقات ابن سعد: ۱/۸۳)
اور ولادت کے پینتیسویں سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کی ہونے والی تیسری تعمیر کے وقت حجرِ اسود کو اپنے دست ِاقدس سے نصب فرما کر خانہ جنگی کے لیے کمر بستہ قبائل قریش کے درمیان باہمی محبت والفت پیدا فرما دی اور اس کٹھن مرحلے کو بحسن وخوبی انجام تک پہنچایا۔ (سیرت ابن ہشام: ۱/۶۵)
حیات طیبہ کے انتالیس سالوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کردار ایسا بے مثال رہا کہ اپنے تو اپنے؛ بلکہ غیروں کی زبان پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صادق اور امین ہیں۔
ولادت کے چالیسویں سال میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زیادہ وقت غار حرا میں گزارا، یہاں ہی آپ کے سر پر نبوت کا تاج رکھاگیا۔
نبوت کے پہلے سال غارِ حرا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سورہ علق کی پہلی پانچ آیات نازل ہوئیں،(شرح المواہب: ۱/۲۰۷) باتفاق موٴرخین آپ کو نبوت اتوار کے دن عطا ہوئی؛ لیکن مہینہ کے بارے میں موٴرخین کا اختلاف ہے، ابن عبد البر  کے نزدیک آٹھ ربیع الاول کو نبوت سے سرفراز ہوئے، اس قول کی بنا پر بہ وقت بعثت آپ کی عمر چالیس سال تھی؛ جب کہ ابن اسحاق  کے قول کے مطابق سترہ رمضان کو آپ کو نبوت ملی، اس قول کے مطابق بوقتِ بعثت آپ کی عمر چالیس سال اور چھ ماہ تھی، حافظ ابن حجر نے اسی قول کو ترجیح دی ہے۔ (فتح الباری، کتاب التعبیر: ۱۲/ ۳۱۳)
نبوت کے دوسرے سال میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم خفیہ تبلیغ فرماتے رہے، اسی سال حضرت خدیجہ، حضرت ورقہ بن نوفل، حضرت علی المرتضیٰ، حضرت ابو بکر صدیق، حضرت جعفر بن ابی طالب، حضرت عفیف کندی، حضرت طلحہ، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت خالد بن سعید، حضرت عثمان بن عفان،حضرت عمار، حضرت صہیب، حضرت عمرو بن عنبسہ اور زید بن حارثہ رضی اللہ عنہم اجمعین آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے ۔یہ سب اور کچھ دیگر حضرات صحابہ سابقین اولین صحابہ کہلاتے ہیں۔
نبوت کے تیسرے سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متبنیٰ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے بیٹے حضرت اسامہ کی ولادت ہوئی۔
نبوت کے چوتھے سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو علی الاعلان دعوت ِ دین دینے کا حکم ہو ا ، جس کی بنا پر کفار خصوصاً قریش کی طرف سے بھی کھلم کھلا دشمنی، اور بغض وعداوت کا مظاہرہ ہونے لگااوراسی سال حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ولادت ہوئی۔
نبوت کے پانچویں سال حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ مشرف بہ اسلام ہو ئے ، اسی سال حبشہ کی طرف پہلی اور دوسری ہجرت ہو ئی، پہلی ہجرت میں گیارہ مرد اور پانچ عورتیں شامل تھیں۔ (فتح الباری: ۱/۱۸۰) اور دوسری ہجرت میں چھیاسی مرد اور سولہ عورتیں شامل تھیں۔ (سیرة ابن ہشام: ۱/۱۱۱)اسی سال حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا کو ابو جہل ملعون کے ہاتھوں شہادت نصیب ہوئی، یہ اسلام کی خاطر شہید ہونے والی پہلی خاتون ہیں۔
نبوت کے چھٹے سال حضرت حمزہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما مشرف بہ اسلام ہو ئے اور ان کی برکت سے مسجدِحرام میں نماز اعلانیہ ادا کی گئی۔(شرح المواہب : ۱/۲۷۶)
نبوت کے ساتویں سال مقاطعہٴ قریش کا واقعہ پیش آیا، آپ علیہ السلام کے ساتھ بنو ہاشم اور بنو مطلب شعب ابی طالب میں محصور کر دیے گئے، اسی دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی ولادت ہو ئی۔(روض الانف: ۱/۲۳۲)
نبوت کے آٹھویں سال مشرکینِ مکہ کے مطالبہ پر شق ِقمر کا بے مثال معجزہ رو نما ہوا، (البدایہ والنہایہ: ۳/ ۱۱۸)
نبوت کے نویں سال میں بھی شعب ابی طالب میں ہی محصور رہے۔
نبوت کے دسویں سال مقاطعہ ختم ہوا (طبقات ابن سعد: ۱/۱۳۹) اور اسی سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب کا انتقال ہوا ۔ان کے انتقال کے تقریبا ً تین یا پانچ دن بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سال کو عام ُالحزن قرار دیا (شرح المواہب : ۱/۲۹۱)۔ اسی سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا سے ہوا، اور اسی سال حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آئیں؛ لیکن رخصتی نہیں ہوئی۔ اور اسی سال واقعہٴ طائف بھی پیش آیا(البدایہ والنہایہ: ۳/۱۳۵)۔
نبوت کے گیارہویں سال مدینہ سے آنے والے حاجیوں میں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت سے تقریبا ً چھ آدمی مشرف بہ اسلام ہوئے، اس سے انصار کے اسلام کا آغاز ہوا(البدایہ والنہایہ: ۳/۱۴۸)۔
نبوت کے بارھویں سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج ہوئی اور اسی موقع پر امت پر پانچ نمازیں فرض ہوئیں۔ اسی سال بیعت عقبہٴ اولیٰ ہوئی۔ اس میں ۱۲ اَفراد مشرف بہ اسلام ہوئے۔ (شرح المواہب: ۱/۳۱۶)
نبوت کے تیرھویں سال بیعت عقبہ ٴ ثانیہ ہو ئی ،جس میں ۷۳ مرد اور ۲ عورتوں نے اسلام قبول کیا ۔اسی سال مسلمانوں کو مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت مل گئی ۔اسی سال قریش نے نعوذبا للہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا منصوبہ بنایا۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قریش کی سازش سے آگاہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہاں سے ہجرت کرنے کی اجازت دے دی۔ اجازت ملنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے کر مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی۔
حیاتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا مدنی دور
جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے بعد کی حیاتِ مبارکہ کا دور ”مدنی دور“ کہلاتا ہے، جو کہ بڑا تابناک دور ہے، جس میں آپ علیہ السلام کی اَن تھک کوششوں، محنتوں اور قربانیوں کے سبب اسلام کو غلبہ نصیب ہوا، آپ علیہ السلام کی جانثار جماعتِ قدسیہ کے سرفروشوں نے اسلام کی نشر واشاعت کے لیے آپ علیہ السلام کے اشاروں پر اپنا تن من دھن سب کچھ لٹا دیا-رضی اللہ عنہم اجمعین-آپ علیہ السلام کے اس بے مثال دور کا نقشہ کھینچنے کی منظر کشی اتنی طویل ہے کہ شاید کئی ضخیم مجلدات کا پیٹ بھی اس موضوع کو اپنے میں نہ سما سکے، ذیل میں بہت ہی اختصار کے ساتھ ہجرت کے بعد کی زندگی کو اشارةً بطورِ ایک جھلک کے پیش کیا جاتا ہے۔
ہجرت کا پہلا سال: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ہمراہ تین دن تک غار ِثور میں رُوپوش رہنے کے بعد یکم ربیع الاوّل مدینہ کی جانب ہجرت کی، اسلام کی پہلی مسجد مسجد ِقباء کی بنیاد رکھی ،مدینے کے یہودی اور آس پاس کے رہنے والے قبیلوں سے امن اور دوستی کے عہد نامے لکھائے گئے۔اسی سال حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ مشرف بہ اسلام ہوئے۔اسی سال مسجد نبوی کی بھی تعمیر کی گئی۔اذان واقامت کی ابتداء بھی کی گئی۔انصار اور مہاجرین کے درمیان ایک مثالی بھائی چارہ قائم ہوا، جس کی نظیر تاریخ عالم میں نہیں مل سکتی۔اسی سال شوال میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی رخصتی بھی ہو گئی۔
ہجرت کے دوسرے سال مسلما نوں پر جہا د فرض ہوا ، رمضان کے روزے ،زکوٰة، صدقةالفطر اور عیدین کی نمازیں فرض ہوئیں۔مسجد اقصیٰ کے بجا ئے بیت اللہ کو جہت ِقبلہ قرار دیاگیا ۔ فاطمةالزہرا رضی اللہ عنہاکا نکاح حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی لخت جگر حضرت رُقیہ رضی اللہ عنہاکا وصال بھی اسی سال ہوا۔ حق وباطل کا پہلا غزوہ بدر بھی اسی سال پیش آیا۔
ہجرت کے تیسرے سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت حفصہ بنت عمر فاروق رضی اللہ عنہاسے اور اس کے بعد حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا سے نکاح ہوا۔ حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما کی ولادت ہوئی ، آپ کی لخت جگر حضرت اُمِ کلثوم رضی اللہ عنہاکا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے نکاح ہوا۔ گستاخان ِرسول کعب بن اشرف اور ابو رافع کو جہنم رسید کیاگیا۔ اسی سال غزوہٴ اُحد کا واقعہ پیش آیا۔
ہجرت کے چوتھے سال بنو نظیر کی جلاوطنی ہوئی۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی ولادت ہوئی،اسی سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے نکاح ہوا۔ اور شراب کے حرام ہونے کا حکم بھی اسی سال نازل ہوا۔
ہجرت کے پانچویں سال شرعی پردہ کا حکم نازل ہوا، زنا کی سزا کا حکم ہوا، صلاة الخوف کی مشروعیت ہوئی، تیمم کی اجازت ملی، واقعہٴ اِفک ہوا اور اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کی شان میں سورة النور نازل ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت جویریہ بنت حارث رضی اللہ عنہا سے اور حضرت زینب بنت حجش رضی اللہ عنہاسے نکاح ہوا۔ غزوئہ خندق، غزوئہ بنی مصطلق اور غزوہٴ بیر معونہ پیش آیا، جس میں۷۰ حفاظ صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کو دھوکے سے شہید کیا گیا۔
ہجرت کے چھٹے سال مالدار مسلمانوں پر حج فرض ہوا۔سورة الفتح نازل ہوئی۔ اسی سال حدیبیہ کی صلح ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ۱۴۰۰ صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے ہمراہ حج کے لیے روانہ ہوئے، صلح حدیبیہ سے واپسی کے بعد دیگر ممالک کے بادشاہوں کو دعوتی خطوط روانہ فرمائے۔اسی سال مدینہ منورہ میں قحط پڑا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے دور ہوا۔
ہجرت کے ساتویں سال غزوئہ خیبر پیش آیا۔ اس غزوہ سے واپسی پر لیلة التعریس کا واقعہ پیش آیا، جس میں پورے لشکر کی نماز فجر قضا ہو گئی۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا۔ ایک یہودی عورت زینب بنت حارث کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو زہر دینے کی کوشش کی گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت ام حبیبہ رملہ بنت ابی سفیان، حضرت میمونہ بنت حارث، اور حضرت صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا سے نکاح ہوا، حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ کی آخری زوجہ ہیں۔
ہجرت کے آٹھویں سال حضرت خالد بن ولید اور عمروبن العاص رضی اللہ عنہما مشرف بہ اسلام ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ القضاء فرمایا ، غزوہ موتہ اور فتح مکہ کا عظیم الشان واقعہ پیش آیا۔ حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ مشرف بہ اسلام ہوئے۔غزوئہ حنین وطائف ہوا۔ حضرت ابوبکر صکے والد ابو قحافہ نے اسلام قبول کیا۔اسی سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحب زادے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے۔
ہجرت کے نویں سال غزوہٴ تبوک پیش آیا اور اس غزوہ سے واپسی پر منافقین کی بنائی ہوئی مسجد ضِرار کو منہدم کردیا گیا۔ رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی سلول کی موت ہوئی۔ اس سال ستر/۷۰ سے زائد وفود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ سورة التوبہ نازل ہوئی۔ اسی سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج سے ایلا کیا اور قسم کھائی کہ ایک مہینہ تک تمہارے قریب نہیں آوٴں گا۔ اسی سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھوڑے سے گرے، جس کی وجہ سے دائیں پہلو اور پنڈلی پر خراش آئی، اسی سال حج فرض ہوا، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو امیر الحج بنا کر تین سو افراد کے ساتھ حج کے لیے بھیجا گیا۔
ہجرت کے دسویں سال مسیلمہ کذاب نے اور اسود عنسی نے بھی نبوت کا دعویٰ کیا۔حجة الوداع کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا۔اس خطبے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن موجود تھیں، جن کی تعداد ۹تھی۔اور صحابہٴ کرام کی تعداد (ایک لاکھ)سے متجاوز تھی۔ اس موقع پر اسلام کے سارے اصول سمجھا دیے گئے۔ جاہلیت کی رسموں کو اور شرک کی باتوں کو ملیامیٹ فرما دیا اور
(ہجرت کے گیارہویں سال) امت کو الوداع کہتے ہوئے پوری امتِ مسلمہ بلکہ پوری کائنات کو یتیم کرتے ہوئے اپنے محبوبِ حقیقی اللہ جَلَّ جلالُہ سے جاملے۔
 إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون