Friday 30 December 2016

مختصر القدوري بتحقيق سائد بكداش (بدون تعليق)

مختصر القدوري بتحقيق د.سائد بكداش (بدون تعليق)
طبعه الثانية ١٤٣٥ه
دار البشائر الاسلامية . دار السراج



Download- 9mb  - التحميل 


صدر ـ بتوفيق الله وعونه محقَّقاً لأول مرة بجهدٍ كبيرٍ على اثنتي عشرة نسخة مخطوطة ـ كتابُ: (مختصر القدوري)، للإمام القدوري، المتوفى سنة 428هـ، رحمه الله تعالى، وهو عمدة مذهب الحنفية. مع تحقيق نادرٍ لأول مرة على سبع نُسَخٍ  لشرحه المعتمد المشهور: (اللباب في شرح الكتاب). للعلامة الشيخ عبد الغني الميداني الدمشقي، تلميذ ابن عابدين، المتوفى سنة 1298هـ، رحمه الله تعالى. (بتحقيق الأستاذ الدكتور/ سائد بكداش) عضو هيئة التدريس في جامعة طيبة بالمدينة المنورة وقد صدر في ست مجلدات، الأول منها جاء في خمسمائةٍ وستين صفحة، تضمَّن دراسة موسَّعة عن مختصر القدوري، وشرحه اللباب،
ثم جاء المجلد السادس ليضمَّ مختصر القدوري كاملاً مفقَّراً متتالياً، كما أراد مؤلِّفُه، بدون أي تعليق، وقد جاء في أربعمائة 
صفحة، وفي كل صفحة نحو ثلاثين مسألة، وبذلك يكون عدد مسائل القدوري اثنتي عشر ألف مسألة
وهو هذا.......
بواسطة اخي (جزاه الله خيرا) في موقع ارشيف 
.................

دکتور سائد بکداش عرب کے مشہور محقق عالم ہیں ۔وہ مشہور محقق عالم شیخ محمد عوامہ حفظہ اللہ کےشاگر ہیں اور غالباََ داماد بھی ہیں ۔
وہ فقہ حنفی کی بعض کتب پر تحقیق کر کے شائع کر چکے ہیں ۔۔۔انہوں نے مختصر القدوری کو مع اس کی شرح اللباب فی شرح الکتاب ، عبد الغنی المیدانیؒ جو علامہ شامیؒ کے شاگرد ہیں ۔۔۔پر تحقیق کی ۔
مختصر القدوری کے ۱۲ مخطوطات اور شرح اللباب کے ۷ مخطوطات کو سامنے رکھ کر شائع کیا ۔
اس میں پہلی جلد صرف دراسہ پر مشتمل ہے جس میں امام قدوریؒ ، مختصر القدوری ، اللباب اور مصنف کے بارے میں تفصیلی معلومات فراہم کئے ہیں ۔ یہ کتاب کل ۶ جلدوں میں ہے ۔
اس کی آخری جلد میں مختصر قدوری کا متن جو بغیر تعلیق کے ہے شائع کیا ہے ۔
اسی مختصر قدوری جو بغیر تعلیق کے ہے کو ایک بھائی نے آرکائیو میں اپلوڈ کیا ہے ۔
اوپر اسی کا لنک ہے ۔

Wednesday 18 May 2016

سورۃ یٰس صبح یا شام کو پڑھنے کی فضیلت



سورۃ یٰس صبح یا شام کو پڑھنے کی فضیلت سے متعلق حدیث صحیح اور قابل عمل ہے 
 تصحيح حديث في فضل قراءة سورة يس
------------------

بلغَني أنَّ رسولَ اللَّهِ - صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ - قالَ : مَن قرأَ يس في صدرِ النَّهارِ ؛ قُضِيَت حوائجُهُ
ترجمہ :عطا بن ابی رباح رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مجھ تک یہ بات پہنچی ہے کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس نے دن کی ابتدا میں سورۃ یٰسین تلاوت کی اسکی حاجتیں پوری کر دی جاتی ہیں .
(سنن الدارمی: ۲/٤٥٧، کشف الخفاء: ۲/٣۹۰)
 : ۲١٧٧
یہ روایت مرسل حسن ہے ۔
---------------------------------

سورۃ یس کی صبح یا رات  میں پڑھنے کی فضیلت سے متعلق اس باب میں روایت قابل قبول ہے ۔

حدثنا الوليد بن شجاع قال: حدثني أبي قال: حدثني زياد بن خيثمة، عن محمد بن جحادة، عن عطاء بن أبي رباح  قال :بلغني أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - قال: من قرأ يس في صدر النهار قضيت حوائجه

جس شخص نے دن کے ابتدائی حصہ میں سورت یٰس پڑھی اس کی حاجتیں پوری کی جاتی ہیں

دارمی مع الشرح فتح المنان ۱۰۔۵۲۸
المشکاۃ مع الشرح مرقاۃ ۵۔۶۴
-------------------
اہل حدیث عالم شارح المشکاۃ مولانا عبید اللہ مبارکپوریؒ حضرت عطاؒ کی مرسل کی شرح میں
  مرعاة المفاتيح ۷۔۲۵۳ پہ فرماتے ہیں
اس سند كے رجال ثقہ ہیں سوائے شجاع بن الولید کے ۔۔۔اور وہ
 ’’صدوق ورع له اوهام..كذا في التقريب‘‘ 
ہے ۔۔۔
اور اس باب میں ابن عباسؓ سے ابی الشیخ میں حدیث مروی ہے ۔ان الفاظ کے ساتھ
’’.......................ومن قرأها في صدر النهار و قدمها بين يدى حاجته قضيت .‘‘
شیخ مبارکپوریؒ نے معلوم نہیں کہاں سے نقل کیا ہے ۔ یہ روایت یقیناََ ابی الشیخؒ کی مشہور کتاب ثواب الاعمال میں ہوگی ۔ جو 
کہ مخطوط ہے ۔ يا ان كی فضائل القرآن پہ بھی کتاب ہے ۔

بہر حال اس سے ملتی جلتی اور کچھ اور روایات یہ ہیں ۔
سنن دارمی میں عطاء  ؒ کی اس مرسل روایت کے بعد حضرت ابن عباسؓ کی موقوف روایت ہے ۔

حدثنا عمرو بن زرارة ثنا عبد الوهاب ثنا راشد أبو محمد الحماني عن شهر بن حوشب قال قال ابن عباس : من قرأ يس حين يصبح أعطي يسر يومه حتى يمسي ومن قرأها في صدر ليلة أعطي يسر ليلته حتى يصبح

جو صبح کے وقت سورۃ یس پڑھے گا شام تک دن آسانی سے گزرے گا ، اور جو رات کو پڑھے گا صبح تک اس کی رات آسانی سے گزرے گی۔
سنن دارمی مع شرح فتح المنان۔۔۔ج۱۰ص ۵۲۹

اس کی سند حسن درجے کی ہے ۔
اس کے راوی یہ ہیں ۔
۱۔ عمرو بن زرارة
یہ ثقہ ثبت راوی ہیں ۔
بخاری و مسلم کے راوی ہیں ۔ اور دارمی کے شیخ ہیں ۔
سیر اعلام النبلا ۔۔۱۱۔۴۰۶
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۲۔ عبد الوهاب بن عطاء البصري الخفاف
ان کی بھی اکثر محدثین توثیق کرتے ہیں ۔ بعض جرح کرتے ہیں ۔
یہ صحیح مسلم کے راوی ہیں ۔

ذہبیؒ فرماتے ہیں ۔۔۔سیر اعلام النبلا ۹۔۴۵۱
الإمام الصدوق العابد المحدث 
يحيى بن سعيد القطانؒ ،یحیی بن معینؒ ،  ابن سعدؒ ، الدارقطنیؒ .
وغیرہ توثیق کرتے ہیں ۔
امام احمدؒ  اور بخاریؒ سے اقوال مختلف ہیں ۔
ذہبیؒ آخر میں فرماتے ہیں
قلت: حديثه في درجة الحسن.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۳۔ راشد أبو محمد الحماني
تابعی ہیں ۔ حضرت انسؓ سے روایت کرتے ہیں ۔
ابو حاتمؒ ، ذہبیؒ ، الہیثمیؒ ، ابن حجرؒ ان کی توثیق کرتے ہیں۔
امام بخاریؒ ادب المفرد میں ان سے روایت کرتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۴۔ شهر بن حوشب
کبار تابعین میں سے ہیں ۔بہت سے جلیل القدر صحابہؓ سے روایت کرتے ہیں ۔ مثلاََ ام المؤمنین عائشہؓ و ام سلمۃؓ ، حضرت ابن عباس ؓ ، ابی سعید خدریؓ ، ابو ہریرۃؓ اور بہت سے صحابہؓ۔۔
انہوں نے قرآن ابن عباس ؓ سے پڑھا۔
بقول ذہبی ؒ حضرت بلالؓ ، ابو ذرؓ ، سلمانؓ اور کئی اورصحابہؓ سے مرسلاََ بھی روایت کرتے ہیں ۔
امام احمدؒ ان کی توثیق کرتے ہیں ۔امام یحیی بن معین ؒثبت کہتے ہیں۔
امام ترمذیؒ ۔۔امام بخاریؒ سے نقل کرتے ہیں  کہ وہ حسن الحدیث ہیں۔(سیراعلام)
سنن ترمذی (تحقیق شاکر ۴۔۴۳۴)میں اس طرح ہے ۔
وسألت محمد بن إسماعيل عن شهر بن حوشب فوثقه
صحیح مسلم میں بھی ان کی حدیث مقروناََہے ۔
معمولی جرح بھی ہے ان پر۔ذہبیؒ فرماتے ہیں
الرجل غير مدفوع عن صدق وعلم والاحتجاج به مترجح
ذہبیؒ خود بھی سیر اعلام النبلا ۲۔۳۰۹ پہ شھر من حوشبؒ کی سند سے روایت کر کے فرماتے ہیں
وهو حديث حسن صحيح الإسناد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الغرض یہ حسن سند ہے ۔
دارمی کے الگ الگ محققین بھی اس کو حسن ہی کہتے ہیں ۔

یہ روایت اگرچہ موقوف ہے ۔لیکن حکماََ مرفوع ہے ۔
اس جیسی روایت کے حکماََ مرفوع ہونے کے بارے میں  جیسا کہ آگے حافظ ابن حجرؒ کے حوالے سے آئے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور اس کی تائید الضحاک عن ابن عباسؓ کی روایت سے بھی ہوتی ہے کہ
الماوردي ۴۵۰ھ ۔۔۔۔تفسیر النکت والعیون۔۔۔۔۔ج۵ص۳۵
وروى الضحاك عن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (إن لكل شيءٍ قلْباً وإنَّ قلْبَ القرآن يس , ومن قرأها في ليلة أعطي يُسْر تلك الليلة , ومن قرأها في يوم أعطي يُسْرَ ذلك اليوم , وإنّ أهل الجنة يرفع عنهم القرآن فلا يقرأون منه شيئاً إلا طه ويس).
اس کی سند نقل نہیں کی لیکن ظاہر یہی ہے کہ  ۔۔الضحاك بن مزاحم ۱۰۵ھ ۔۔کی تفسیر سے نقل کر رہے ہیں ۔ جس کی روایات  ابن عباس ؓ سے مشہور ہیں ۔ 
اور بعض علماء کے نزدیک یہ تفسیر انہوں نے سعید بن جبیرؒ کے زریعے سے حاصل کی ۔
امام یحیی بن معینؒ اور امام احمدؒ ان کی توثیق کرتے ہیں ۔۔جیسا کہ سیر اعلام النبلا ۴۔۵۹۸میں ہے ۔
اس لئے تائید میں کوئی حرج نہیں ۔واللہ اعلم

شرح دارمیؒ کے مؤلف..... عطاؒکے اثر ’’ بلغنی ان رسول الله ﷺ ‘‘ کے ذیل میں فرماتے ہیں کہ
لعل المبلغ له ابن عباسؓ فانه معروف بالرواية عنه....
پھر انہوں نے اس سے بعد والے ابن عباسؓ کے اثر کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ جو کہ اوپر نقل ہوا ۔
اور شیخ مبارکپوریؒ نے ابی الشیخ کی روایت  کی طرف اشارہ کیا وہ بھی ابن عباسؓ کی تھی ۔
ایک اور تابعی کا اثر بھی اسی طرح کا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ھ۱۳۲ھ۔يحيى بن أبي كثير اثر تابعی ۔۔
جس شخص نے سورہ یس صبح کے وقت پڑھی وہ شام تک خوش رہے گا، اور جس نے شام کے وقت پڑھی وہ صبح تک خوش رہے گا، پھر کہا: ہمیں اُس نے بتایا ہے جس نے خود اسکا تجربہ کیا
ابن ضریس 294ھ ۔۔۔۔فضائل القرآن ۔ح۔۲۲۰
الثعلبی 427ھ ۔۔۔۔۔۔۔تفسیر۔۔ص ۱۱۹۔ ج ۸
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حضر ت عطاؒ کی مرسل اور اثر یحییؒ  جیسی روایات  کے بارے میں حافظ ابن حجرؒ کی نتائج الافکار سے کچھ نقل کرتا ہوں ۔

حضرت ابو ہریرہؓ کی سورہ یس دن اور رات کو پڑھنے پر مغفرت کی فضیلت والی حدیث کے طرق پر بحث کرتے ہوئے حافظ ابن حجرؒ نے نتائج الافکار ۳۔۲۵۷ پہ حدیث کو حسن فرماتے ہوئے دارمی کی ایک سند کا ذکر کرتے ہوئے
وأخرجه الدارمي أيضاً عن محمد بن المبارك، عن صدقة بن خالد، عن يحيى بن الحارث، عن أبي رافع، فذكره مقطوعاً،
آگے فرمایا ہے ۔
ومثله لا يقال من قبل الرأي، فله حكم المرفوع.
یعنی اس جیسی بات رائے سے نہیں کہی جاسکتی بلکہ اس کا حکم مرفوع کا ہوگا۔
اسی طرح کسی اور سورۃ کی فضیلت کی ایک حدیث کے ذیل میں ۵۔۴۹ پہ فرماتے ہیں
هذا إسناد مقطوع، وله حكم المرفوع المرسل؛ إذ لا مجال للاجتهاد فيه
جب  یہ مقطوع کے بارے میں ہے تو ۔۔موقوف روایت تو بدرجہ اولیٰ اس کی مستحق ہے   ۔ اس لئے بھی کہ یہ مرفوع بھی مروی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابن کثیر نے سورہ یس کے فضائل کی روایات بیان کر کے آخر میں فرمایا ہے  ۔

ولهذا قال بعض العلماء : من خصائص هذه السورة : أنها لا تقرأ عند أمر عسير إلا يسره الله .
اسی لئے بعض علما فرماتے ہیں کہ اس سورت کے خصائص میں سے ہے کہ مشکل امر میں اس کی تلاوت سے اللہ تعالیٰ آسانی فرماتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس طرح کی حضرت ابن عمرؓ کی مرفوع صحیح حدیث بھی ہے ۔
المستغفری ۴۳۲ھ۔۔۔۔فضائل القرآن  ۲۔۵۹۵ ۔۔۔۔۔۔
أخبرنا أبو بكر محمد بن بكر بن خلف، حَدَّثَنا أبو نعيم عبد الملك بن أحمد بن عدي، حَدَّثَنا محمد بن عوف الحمصي، حَدَّثَنا أبو بكر محمد بن خالد البصري قال: وهذا أقدم من كتبنا عنه، حَدَّثَنا خالد بن سعيد بن أبي مريم عن نافع عن ابن عمر عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: من قرأ {يس} فكأنما قرأ القرآن عشر مرات، وَمن قرأها ليلا أعطي يسر ليلته، وَمن قرأها نهارا أعطي يسر نهاره.
اس کے راوی یہ ہیں۔
۱۔ أبو بكر محمد بن بكر بن خلف ٣٨٠ھ
شيخا صالحا (الانساب السمعانی۔۔۱۳۔۳۱۹)
۲۔ أبو نعيم عبد الملك بن أحمد بن عدي
عبد الملك بن محمد بن عدي الحافظ الحجة أبو نعيم الجرجاني ۳۲۳ھ
امام حافظ کبیر ثقہ  (سیر اعلام النبلا ۱۴۔ ۵۴۱)
۳۔ محمد بن عوف الحمصي ۲۷۲ھ
ثقہ ہیں ۔
(تهذيب الكمال ۲۶۔۲۳۶ ،  سیر اعلام النبلا ۱۲۔۶۱۳)
۴۔ أبو بكر محمد بن خالد البصري
ان سے مراد ان دو راویوں میں سے کوئی ہے ۔ دونوں ثقہ ہیں ۔
محمد بن خالد بن عثمة البصري ہیں جو کہ صدوق ہیں (التھذیب ابن حجر ۹۔۱۴۲۔۔۔۔۔الکاشف ۲۔۱۶۷)
یا
مُحَمَّد بن خالد بن خداش بن عجلان المهلبي مولاهم، أبو بكر الضرير البصري سكن بغداد
صدوق ۔ربما أغرب عن أبيه
(الثقات ٩۔١١٣...تهذیب الکمال ۲۵۔۱۳۵۔ التھذیب ابن حجر ۹۔۱۴۰)
۵۔ خالد بن سعيد بن أبي مريم
ثقہ (تهذيب الكمال ۸۔۸۳ ،   الکاشف لذہبی ۱۔۳۶۵)
۶۔ نافع ۱۱۷ھ
۷۔ ابن عمرؓ

محقق فضائل القرآن المستغفری نے خالد بن سعید بن ابی مریم ؒ کے متعلق اعتراض کیا ہے کہ وہ اس میں متفرد ہیں ۔۔ اور کسی راوی پہ اعتراض نہیں کیا ۔
خالد بن سعيد بن أبي مريم المدنیؒ ثقہ ہیں ۔
بعض محدثین نے جہالت کا اعتراض کیا ہے  ۔ابن المدینی ؒ اور ابن قطانؒ جوکہ ظاہر ہے قابل قبول نہیں ۔کیونکہ ابن حبانؒ ، الذہبیؒ نے توثیق کی ہے ۔
اسی لئے خالد پر واحد جرح کرنے والے عقیلیؒ نے بھی ان پر جہالت کا اعتراض نہیں کیا ۔انہوں نے جو جرح کی ہے  صحیح نہیں ۔ایک تو انہوں نے اور کسی سے جرح نقل نہیں کی ۔۔۔بس یہ کہا ہے کہ
لا يُتابَع على حَديثه
اور مثال میں سورۃ بقرۃ کی فضیلت والی حدیث نقل کی
سَهل بن سَعد، قال: قال رسول الله صَلى الله عَليه وسَلم: إِن لكُل شَيء سَنامًا، وإِن سَنام القُرآن سُورَة البَقَرَة۔۔۔۔۔۔۔
پھر فرمایا
وفي فَضل سُورَة البَقَرَة رِوايَة أَحسَن مِن هَذا الإِسناد وأَصلَح, بِخِلاف هَذا اللَّفظ، وأَما في تَمثيل القُرآن فليس فيه شَيء يَثبُت مُسنَدًا
یعنی ایک اور روایت اس میں مروی ہے اور اس سند سے زیادہ اچھی ہے ۔
اور تمثیل القرآن میں مسنداََ کچھ ثابت نہیں ۔۔۔
حالانکہ تمثیل القرآن سے متعلق
حاکم۱۔۷۴۸
پہ عبد اللہ بن مسعودؓ کی صحیح سند سے مرفوع اور موقوف دونوں طرح مروی ہے ۔
اور کئی شواہد بھی ہیں اس کے ۔
اور صحیح ابن حبانؒ ۳۔۵۹ پہ حافظ ابن حبانؒ نے باب ہی اسی عنوان سے قائم کیا ہے
ذِكْرُ تَمْثِيلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُورَةَ الْبَقَرَةِ مِنَ الْقُرْآنِ بِالسَّنَامِ مِنَ الْبَعِيرِ
اور خالد بن سعیدؒ کی روایت نقل کی ہے ۔ جس پر عقیلیؒ  نے اعتراض کیا ہے ۔
اورابن حبانؒ نے خالد کو الثقات ۶۔۲۶۰ میں بھی ذکر کیا ہے ۔
الغرض عقیلیؒ کی جرح صحیح نہیں ۔
اور شاید عقیلیؒ کی جرح اور دوسرے  محدثین کی جہالت کے اعتراض سے حافظ ابن حجرؒ نے جو تقریب میں  صرف مقبول کہا ہے وہ بھی درست معلوم نہیں ہوتا۔
الذہبیؒ نے الکاشف پہ ان کو واضح ثقہ فرمایا ہے ۔
اور ان کے شیخ المزیؒ کے طرز سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کیونکہ انہوں نے نہ ہی عقیلیؒ  کا اعتراض نقل کیا نہ ہی جہالت کا اعتراض نقل کیا ۔ البتہ ابن حبانؒ کا ثقات میں ذکر کرنے کا کہا۔اور یہ بھی فرمایا کہ ابوداودؒ اور ابن ماجہؒ نے ان سے روایت نقل کی ہے ۔
الغرض یہ روایت صحیح ہے ۔
ورنہ حسن سے کم نہیں۔
اور اس کو ابن عباسؓ کی روایت سے مزید تقویت ملتی ہے ۔

چناچہ سورۃ یٰس صبح یا رات کو پڑھنے کی فضیلت صحیح ہے ۔اور فضائل اعمال میں تو بد رجہ اولیٰ صحیح ہے ۔

 اللہ تعالیٰ کوئی کمی کوتاہی ہو تو درگزر فرمائے۔آمین۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اخبار الكتب - المواهب اللطيفہ شرح مسند ابی حنیفہ۔عابد سندیؒ



اخبار الكتبالمواهب اللطيفہ شرح مسند ابی حنیفہعابد سندیؒ
--------------------
امام ابو حنیفہؒ کی مسانید بیسیوں ہیں ۔ اور ان پر ۔۔۔اور حدیثی کام اس کے علاوہ ہیں ۔
ان کی مسانید میں سب سے زیادہ مشہور ، مستند ۔۔۔امام حافظ عبد اللہ الحارثی البخاریؒ کی مسند امام اعظم ہے ۔
 اس پر بھی اگرچہ کئی طرح کام ہوا ہے ۔ لیکن اس کا ایک اختصار جو الحصکفیؒ نے کیا بہت مشہور ہے ۔

اگرچہ مسند الحصکفیؒ ۔۔۔مسند الحارثیؒ کا ہی اختصار ہے لیکن انہوں نے کچھ وہ روایات جو امام حماد بن ابی حنیفہؒ نے اپنے والد سے روایت کی ہیں ۔۔۔وہ بھی اس میں لی ہیں ۔۔۔
وہ انہوں نے یا تو مسند امام اعظمؒ ابن خسروؒ سے لی ہیں 
یا براہ راست مسند حماد بن ابی حنیفہؒ جو کہ دراصل کتاب الآثار کا ہی نسخہ ہے ۔۔۔سے لی ہیں۔
 مسند الحصکفیؒ کی دو شروح شائع ہو چکی ہیں ۔ 
ایک امام ملا علی قاریؒ کی ۔۔۔۔سند الانام 
دوسری مولانا محمد حسن سنبھلیؒ کی۔۔۔تنسیق النظام

ايك اور شرح جو عرصہ دراز سے مخطوط تھی اور ان دونوں شروح سے زیادہ بڑی تھی ۔۔۔اور کئی علما کے نزدیک بہت زیادہ اہمیت کی حامل تھی۔اب مولانا تقی الدین ندوی صاحب کی تحقیق سے دار النوادر سے ۷ جلدوں میں شائع ہو گئی۔
ؒالمواهب اللطيفة شرح مسند الإمام أبي حنيفة - شيخ محمد عابد السندي

مولانا عبد الرشید نعمانیؒ کے مطابق فتح الباری ابن حجرؒ کے بعد اس شان کی شرح نہیں لکھی گئی۔۔۔
 مسند الحصکفی میں غالباََ ساڑھے پانچسو تک احادیث ہوں گی ۔۔ اور اس کی اتنی ضخیم شرح ۔۔۔ 

متابعات و شواہد ، تخریج احادیث ، وصل منقطع ، نیز سند اور متن سے متعلق تمام چیزوں کا حل ۔۔۔

اور اس کے علاوہ متن کی جامع شرح ۔۔۔

پورا تعارف تو پڑھ کر ہی کروایا جا سکتا ہے ۔۔۔ 
ابھی تو مولانا تقی الدین ندوی صاحب حفظہ اللہ نے تحقیق تخریج و تعلیق مختصر کی ہے 
شاید اس لئے کہ حجم مزید نہ بڑھ جائے ورنہ شیخ سائد بکداش کی  تحریر پڑھ کر تو لگتا ہے کہ
اگر اس شرح کو مکمل تحقیق تخریج و تعلیق سے مزین کر کے شائع کیا جائے تو ۱۰ سے زیادہ جلدیں ہو جائیں



ایک بھائی ابو تراب علی رضا صاحب (اللہ ان کو جزائے خیر دے ) اس کے مثال کے طور پہ
كچھ صفحات اپلوڈ کئے ہیں جس میں محقق کا مقدمہ ۔ شیخ عابد کا ۲ صفحات کا مقدمہ  (اس میں واحد یہی تشنہ پہلو ہے کہ شیخ عابد سندیؒ نے اس کا مقدمہ نہیں لکھا ۔جیسے علامہ سنبھلیؒ نے لکھا یا جیسےحافظ ابن حجر ؒ کا مقدمہ) اور پہلی حدیث کی تھوڑی سی شرح شامل ہے ۔
Download - مواہب اللطیفہ ۴۰ صفحات

(نوٹ ۔ یہ تحریر ۲۰۱۶ کی ہے پھر یہ کتاب پوری اپلوڈ ہوگئی اور یہاں موجود ہے )

اخبار الكتب - شرح مشكاة ابن حجر مكي۔ و لمعات التنقيح دهلوي


محمد بن عبد الله الخطيب التبريزي -741ھ - كی مشہور کتاب المشكاة المصابيح کی کئی اہم شروح ہیں ۔

جن میں سے ۔۔۔
الكاشف عن حقائق السنن - شرف الدين الحسين بن عبد الله الطيبي - 743ھ 
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح - ملا علي القاري - 1014ھ 
شائع ہو چکی ہیں ۔اگرچہ جیسا کہ تحقیق کا حق ہے ویسی نہیں ۔۔۔



پچھلے کچھ عرصے میں دو اہم شروح بھی شائع ہو گئیں ۔
ایک ان میں سے ابن حجرمکیؒ کی ہے 
فتح الإله في شرح المشكاة - ابن حجر الهيتمي 973 هـ
مجلد - 10
أحمد فريد المزيدي کی تحقیق کے ساتھ - دار الكتب العلمیہ سے شائع ہوگئی ہے ۔






دار الکتب العلمیۃ کی تحقیق تو اتنی اچھی نہیں ہوتی ۔ لیکن یہ اللہ کا شکر ہے کتاب شائع تو ہو گئی۔ 


--------------------


دوسری کتاب جو کہ پہلے نامکمل چھپی تھی اب مکمل شائع ہوئی ۔
لمعات التنقیح شرح مشکاۃ المصابیح - شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ - 1052ھ 
10 جلدوں میں ۔ مولانا تقی الدین ندوی مظاہری صاحب کی تحقیق سے شائع ہوئی ہے ۔
یہ امید ہے کہ ان کی دوسری تحقیقات کی طرح بہترین ہوگی۔





Monday 25 January 2016

سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم ۔ 63 سال - ایک نظر میں

   حیاتِ نبوی (صلی اللہ علیہ وسلم)   63 سال  - ایک نظر میں
 مفتی راشد ڈسکوی   - جامعہ فاروقیہ کراچی

 ReadOnline - image           Download- pdf

۶۳ سالہ حیاتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک جھلک


از: مفتی محمد راشد ڈسکویرفیق شعبہٴ تصنیف وتالیف واستاذ جامعہ فاروقیہ کراچی

سیدنا ومولانا حضرت محمد مصطفی ، احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت پیر کے روز صبح صادق کے وقت ربیع الاول ،عام الفیل ۔بمطابق اپریل ۵۷۱ ءمیں ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے چند مہینے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد ِمحترم ”عبد اللہ “کی وفات ہو گئی، آپ کے دادا جان ”عبد المطلب“ کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسمِ گرامی ”محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب“ ہے ،اور آپ کی والدہ محترمہ ”آمنہ کی طرف سے آپ کا نام ”احمد“ تجویز ہوا۔ ابولہب کی آزاد کر دہ باندی ”ثویبہ رضی اللہ عنہا“کے چند دن دودھ پلانے کے بعدشرفاء ِقریش کی عادت کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ”حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا “کی رضاعت میں دے کر مضافاتِ مکہ میں بھیج دیا ، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم آٹھ دن کے تھے۔
ولادت کے چوتھے سال شقِ صدر کا واقعہ پیش آیا، موٴرخین لکھتے ہیں کہ شق صدر کا واقعہ چار بار پیش آیا، ایک: زمانہ طفولیت میں حضرت حلیمہ سعدیہ کے پاس، دوسری بار دس سال کی عمر میں پیش آیا۔ (فتح الباری: ۱۳/۴۸۱)تیسری بار: واقعہٴ بعثت کے وقت پیش آیا۔ (مسند أبي داوٴد الطیالسي، ص: ۲۱۵) اور چوتھی بار : واقعہٴ معراج کے موقع پر۔ (صحیح البخاری، رقم الحدیث: ۳۴۹)۔ بعض نے پانچویں بار کا شق صدر بھی ذکر کیا ہے؛ لیکن وہ صحیح قول کے مطابق ثابت نہیں ہے۔ (سیرة مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم: ۱/۷۵) آپ تقریبا چھ سال تک ”حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا “کی پرورش میں رہے۔
ولادت کے چھٹے سال آپ کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ نے اپنے میکے میں ایک ماہ کا قیام کیا، وہاں سے واپسی پر مقام ابواء میں ان کا انتقال ہوا اور وہیں مدفون ہوئیں۔(شرح المواہب للزرقانی: ۱/۱۶۰)
ولادت کے ساتویں سال آپ اپنے دادا عبد المطلب کی تربیت میں پروان چڑھتے رہے۔
اور ولادت کے آٹھویں سال ”دادا محترم “کا انتقال ہو گیا،دادا کے انتقال کے بعد آپ اپنے چچا ”ابو طالب“ کی پرورش میں آ گئے۔ (طبقات ابن سعد: ۱/ ۷۴)
اور ولادت کے بارھویں سال آپ نے اپنے چچا کے ساتھ شام کے پہلے تجارتی سفر میں شرکت کی، اسی سفر میں بحیرہ راہب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی پیش گوئی بھی دی۔ (الخصائص الکبری: ۱/ ۸۴)
اور ولادت کے چودہویں سال یا پندرہویں سال اور بعض روایات کے مطابق بیسویں سال عربوں کی مشہور لڑائی ”حرب الفجار“ پیش آئی، اس جنگ میں آپ اپنے بعض چچاوٴں کے اصرار پر شریک تو ہوئے؛ لیکن، قتال میں حصہ نہیں لیا۔ (روض الانف: ۱/۱۲۰)
اور ولادت کے سولہویں سال میں آپ نے اہل مکہ کے (پانچ خاندانی معاہدے) ”حِلف الفضول“ نامی معاہدے میں شرکت کی۔
اور ولادت کے پچیسویں سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا مال لے کر تجارت کا دوسرا سفر شام کی طرف کیا ، سفر سے واپسی پر اس سفر میں پیش آنے والے واقعات ، تجارتی نفع اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق وواقعات سن کر دو مہینہ اور پچیس روز کے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو نکاح کا پیغام بھجوا کر آپ سے نکاح کر لیا۔(طبقات ابن سعد: ۱/۸۳)
اور ولادت کے پینتیسویں سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کی ہونے والی تیسری تعمیر کے وقت حجرِ اسود کو اپنے دست ِاقدس سے نصب فرما کر خانہ جنگی کے لیے کمر بستہ قبائل قریش کے درمیان باہمی محبت والفت پیدا فرما دی اور اس کٹھن مرحلے کو بحسن وخوبی انجام تک پہنچایا۔ (سیرت ابن ہشام: ۱/۶۵)
حیات طیبہ کے انتالیس سالوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کردار ایسا بے مثال رہا کہ اپنے تو اپنے؛ بلکہ غیروں کی زبان پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صادق اور امین ہیں۔
ولادت کے چالیسویں سال میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زیادہ وقت غار حرا میں گزارا، یہاں ہی آپ کے سر پر نبوت کا تاج رکھاگیا۔
نبوت کے پہلے سال غارِ حرا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سورہ علق کی پہلی پانچ آیات نازل ہوئیں،(شرح المواہب: ۱/۲۰۷) باتفاق موٴرخین آپ کو نبوت اتوار کے دن عطا ہوئی؛ لیکن مہینہ کے بارے میں موٴرخین کا اختلاف ہے، ابن عبد البر  کے نزدیک آٹھ ربیع الاول کو نبوت سے سرفراز ہوئے، اس قول کی بنا پر بہ وقت بعثت آپ کی عمر چالیس سال تھی؛ جب کہ ابن اسحاق  کے قول کے مطابق سترہ رمضان کو آپ کو نبوت ملی، اس قول کے مطابق بوقتِ بعثت آپ کی عمر چالیس سال اور چھ ماہ تھی، حافظ ابن حجر نے اسی قول کو ترجیح دی ہے۔ (فتح الباری، کتاب التعبیر: ۱۲/ ۳۱۳)
نبوت کے دوسرے سال میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم خفیہ تبلیغ فرماتے رہے، اسی سال حضرت خدیجہ، حضرت ورقہ بن نوفل، حضرت علی المرتضیٰ، حضرت ابو بکر صدیق، حضرت جعفر بن ابی طالب، حضرت عفیف کندی، حضرت طلحہ، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت خالد بن سعید، حضرت عثمان بن عفان،حضرت عمار، حضرت صہیب، حضرت عمرو بن عنبسہ اور زید بن حارثہ رضی اللہ عنہم اجمعین آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے ۔یہ سب اور کچھ دیگر حضرات صحابہ سابقین اولین صحابہ کہلاتے ہیں۔
نبوت کے تیسرے سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متبنیٰ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے بیٹے حضرت اسامہ کی ولادت ہوئی۔
نبوت کے چوتھے سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو علی الاعلان دعوت ِ دین دینے کا حکم ہو ا ، جس کی بنا پر کفار خصوصاً قریش کی طرف سے بھی کھلم کھلا دشمنی، اور بغض وعداوت کا مظاہرہ ہونے لگااوراسی سال حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ولادت ہوئی۔
نبوت کے پانچویں سال حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ مشرف بہ اسلام ہو ئے ، اسی سال حبشہ کی طرف پہلی اور دوسری ہجرت ہو ئی، پہلی ہجرت میں گیارہ مرد اور پانچ عورتیں شامل تھیں۔ (فتح الباری: ۱/۱۸۰) اور دوسری ہجرت میں چھیاسی مرد اور سولہ عورتیں شامل تھیں۔ (سیرة ابن ہشام: ۱/۱۱۱)اسی سال حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا کو ابو جہل ملعون کے ہاتھوں شہادت نصیب ہوئی، یہ اسلام کی خاطر شہید ہونے والی پہلی خاتون ہیں۔
نبوت کے چھٹے سال حضرت حمزہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما مشرف بہ اسلام ہو ئے اور ان کی برکت سے مسجدِحرام میں نماز اعلانیہ ادا کی گئی۔(شرح المواہب : ۱/۲۷۶)
نبوت کے ساتویں سال مقاطعہٴ قریش کا واقعہ پیش آیا، آپ علیہ السلام کے ساتھ بنو ہاشم اور بنو مطلب شعب ابی طالب میں محصور کر دیے گئے، اسی دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی ولادت ہو ئی۔(روض الانف: ۱/۲۳۲)
نبوت کے آٹھویں سال مشرکینِ مکہ کے مطالبہ پر شق ِقمر کا بے مثال معجزہ رو نما ہوا، (البدایہ والنہایہ: ۳/ ۱۱۸)
نبوت کے نویں سال میں بھی شعب ابی طالب میں ہی محصور رہے۔
نبوت کے دسویں سال مقاطعہ ختم ہوا (طبقات ابن سعد: ۱/۱۳۹) اور اسی سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب کا انتقال ہوا ۔ان کے انتقال کے تقریبا ً تین یا پانچ دن بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سال کو عام ُالحزن قرار دیا (شرح المواہب : ۱/۲۹۱)۔ اسی سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا سے ہوا، اور اسی سال حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آئیں؛ لیکن رخصتی نہیں ہوئی۔ اور اسی سال واقعہٴ طائف بھی پیش آیا(البدایہ والنہایہ: ۳/۱۳۵)۔
نبوت کے گیارہویں سال مدینہ سے آنے والے حاجیوں میں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت سے تقریبا ً چھ آدمی مشرف بہ اسلام ہوئے، اس سے انصار کے اسلام کا آغاز ہوا(البدایہ والنہایہ: ۳/۱۴۸)۔
نبوت کے بارھویں سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج ہوئی اور اسی موقع پر امت پر پانچ نمازیں فرض ہوئیں۔ اسی سال بیعت عقبہٴ اولیٰ ہوئی۔ اس میں ۱۲ اَفراد مشرف بہ اسلام ہوئے۔ (شرح المواہب: ۱/۳۱۶)
نبوت کے تیرھویں سال بیعت عقبہ ٴ ثانیہ ہو ئی ،جس میں ۷۳ مرد اور ۲ عورتوں نے اسلام قبول کیا ۔اسی سال مسلمانوں کو مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت مل گئی ۔اسی سال قریش نے نعوذبا للہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا منصوبہ بنایا۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قریش کی سازش سے آگاہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہاں سے ہجرت کرنے کی اجازت دے دی۔ اجازت ملنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے کر مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی۔
حیاتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا مدنی دور
جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے بعد کی حیاتِ مبارکہ کا دور ”مدنی دور“ کہلاتا ہے، جو کہ بڑا تابناک دور ہے، جس میں آپ علیہ السلام کی اَن تھک کوششوں، محنتوں اور قربانیوں کے سبب اسلام کو غلبہ نصیب ہوا، آپ علیہ السلام کی جانثار جماعتِ قدسیہ کے سرفروشوں نے اسلام کی نشر واشاعت کے لیے آپ علیہ السلام کے اشاروں پر اپنا تن من دھن سب کچھ لٹا دیا-رضی اللہ عنہم اجمعین-آپ علیہ السلام کے اس بے مثال دور کا نقشہ کھینچنے کی منظر کشی اتنی طویل ہے کہ شاید کئی ضخیم مجلدات کا پیٹ بھی اس موضوع کو اپنے میں نہ سما سکے، ذیل میں بہت ہی اختصار کے ساتھ ہجرت کے بعد کی زندگی کو اشارةً بطورِ ایک جھلک کے پیش کیا جاتا ہے۔
ہجرت کا پہلا سال: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ہمراہ تین دن تک غار ِثور میں رُوپوش رہنے کے بعد یکم ربیع الاوّل مدینہ کی جانب ہجرت کی، اسلام کی پہلی مسجد مسجد ِقباء کی بنیاد رکھی ،مدینے کے یہودی اور آس پاس کے رہنے والے قبیلوں سے امن اور دوستی کے عہد نامے لکھائے گئے۔اسی سال حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ مشرف بہ اسلام ہوئے۔اسی سال مسجد نبوی کی بھی تعمیر کی گئی۔اذان واقامت کی ابتداء بھی کی گئی۔انصار اور مہاجرین کے درمیان ایک مثالی بھائی چارہ قائم ہوا، جس کی نظیر تاریخ عالم میں نہیں مل سکتی۔اسی سال شوال میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی رخصتی بھی ہو گئی۔
ہجرت کے دوسرے سال مسلما نوں پر جہا د فرض ہوا ، رمضان کے روزے ،زکوٰة، صدقةالفطر اور عیدین کی نمازیں فرض ہوئیں۔مسجد اقصیٰ کے بجا ئے بیت اللہ کو جہت ِقبلہ قرار دیاگیا ۔ فاطمةالزہرا رضی اللہ عنہاکا نکاح حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی لخت جگر حضرت رُقیہ رضی اللہ عنہاکا وصال بھی اسی سال ہوا۔ حق وباطل کا پہلا غزوہ بدر بھی اسی سال پیش آیا۔
ہجرت کے تیسرے سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت حفصہ بنت عمر فاروق رضی اللہ عنہاسے اور اس کے بعد حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا سے نکاح ہوا۔ حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما کی ولادت ہوئی ، آپ کی لخت جگر حضرت اُمِ کلثوم رضی اللہ عنہاکا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے نکاح ہوا۔ گستاخان ِرسول کعب بن اشرف اور ابو رافع کو جہنم رسید کیاگیا۔ اسی سال غزوہٴ اُحد کا واقعہ پیش آیا۔
ہجرت کے چوتھے سال بنو نظیر کی جلاوطنی ہوئی۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی ولادت ہوئی،اسی سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے نکاح ہوا۔ اور شراب کے حرام ہونے کا حکم بھی اسی سال نازل ہوا۔
ہجرت کے پانچویں سال شرعی پردہ کا حکم نازل ہوا، زنا کی سزا کا حکم ہوا، صلاة الخوف کی مشروعیت ہوئی، تیمم کی اجازت ملی، واقعہٴ اِفک ہوا اور اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کی شان میں سورة النور نازل ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت جویریہ بنت حارث رضی اللہ عنہا سے اور حضرت زینب بنت حجش رضی اللہ عنہاسے نکاح ہوا۔ غزوئہ خندق، غزوئہ بنی مصطلق اور غزوہٴ بیر معونہ پیش آیا، جس میں۷۰ حفاظ صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کو دھوکے سے شہید کیا گیا۔
ہجرت کے چھٹے سال مالدار مسلمانوں پر حج فرض ہوا۔سورة الفتح نازل ہوئی۔ اسی سال حدیبیہ کی صلح ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ۱۴۰۰ صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے ہمراہ حج کے لیے روانہ ہوئے، صلح حدیبیہ سے واپسی کے بعد دیگر ممالک کے بادشاہوں کو دعوتی خطوط روانہ فرمائے۔اسی سال مدینہ منورہ میں قحط پڑا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے دور ہوا۔
ہجرت کے ساتویں سال غزوئہ خیبر پیش آیا۔ اس غزوہ سے واپسی پر لیلة التعریس کا واقعہ پیش آیا، جس میں پورے لشکر کی نماز فجر قضا ہو گئی۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا۔ ایک یہودی عورت زینب بنت حارث کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو زہر دینے کی کوشش کی گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت ام حبیبہ رملہ بنت ابی سفیان، حضرت میمونہ بنت حارث، اور حضرت صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا سے نکاح ہوا، حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ کی آخری زوجہ ہیں۔
ہجرت کے آٹھویں سال حضرت خالد بن ولید اور عمروبن العاص رضی اللہ عنہما مشرف بہ اسلام ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ القضاء فرمایا ، غزوہ موتہ اور فتح مکہ کا عظیم الشان واقعہ پیش آیا۔ حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ مشرف بہ اسلام ہوئے۔غزوئہ حنین وطائف ہوا۔ حضرت ابوبکر صکے والد ابو قحافہ نے اسلام قبول کیا۔اسی سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحب زادے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے۔
ہجرت کے نویں سال غزوہٴ تبوک پیش آیا اور اس غزوہ سے واپسی پر منافقین کی بنائی ہوئی مسجد ضِرار کو منہدم کردیا گیا۔ رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی سلول کی موت ہوئی۔ اس سال ستر/۷۰ سے زائد وفود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ سورة التوبہ نازل ہوئی۔ اسی سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج سے ایلا کیا اور قسم کھائی کہ ایک مہینہ تک تمہارے قریب نہیں آوٴں گا۔ اسی سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھوڑے سے گرے، جس کی وجہ سے دائیں پہلو اور پنڈلی پر خراش آئی، اسی سال حج فرض ہوا، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو امیر الحج بنا کر تین سو افراد کے ساتھ حج کے لیے بھیجا گیا۔
ہجرت کے دسویں سال مسیلمہ کذاب نے اور اسود عنسی نے بھی نبوت کا دعویٰ کیا۔حجة الوداع کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا۔اس خطبے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن موجود تھیں، جن کی تعداد ۹تھی۔اور صحابہٴ کرام کی تعداد (ایک لاکھ)سے متجاوز تھی۔ اس موقع پر اسلام کے سارے اصول سمجھا دیے گئے۔ جاہلیت کی رسموں کو اور شرک کی باتوں کو ملیامیٹ فرما دیا اور
(ہجرت کے گیارہویں سال) امت کو الوداع کہتے ہوئے پوری امتِ مسلمہ بلکہ پوری کائنات کو یتیم کرتے ہوئے اپنے محبوبِ حقیقی اللہ جَلَّ جلالُہ سے جاملے۔
 إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون