Tuesday 2 October 2018

ابراہیم نخعیؒ کی مرسل روایات اور امام شافعیؒ


ابراہیم نخعیؒ کی مرسل روایات اور امام شافعیؒ 

ابراہیم نخعیؒ کوفہ کے عظیم تابعی امام ہیں ۔ان کی مرسل احادیث جمہور کے نزدیک صحیح ہیں ۔
بلکہ ان کی مُسند و متصل سے بھی زیادہ قوی ہیں ۔
اس کی وجہ اُن کا یہ فرمانا ہے کہ جب وہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت بیان کرتے ہوئے راوی کا نام 
لیں تو وہ صرف اُسی سے سُنی ہوتی ہے
اور جب وہ راوی کا نام چھوڑ دیں اور براہ راست حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا نام لیں ۔یعنی روایت مرسل بیان
 کریں ،تو وہ روایت انہوں نے بہت سے راویوں سے سُنی ہوتی ہے ۔
اُن کا یہ قول اگرچہ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کے بارے میں ہے ۔ لیکن اصل میں یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ 
اپنے ارسال کا طریقہ بتا رہے ہیں ۔ چناچہ کوئی وجہ نہیں کہ اس قول کو حضرت عمرؓ ، حضرت علیؓ  ، حضرت 
عائشہ ؓ اور دوسرے صحابہؓ کے سلسلہ میں نہ مانا جائے ۔

اسی وجہ سے جمہور ائمہ اُن کی  مرسل احادیث کی تصحیح کرتے ہیں ۔

امام ابراہیم نخعیؒ کا یہ اوپر والا قول بہت مشہور ہے اور متعدد کتب میں ہے ۔

اور مُرسل حدیث کے سب سے بڑے نقاد امام شافعیؒ کو بھی معلوم ہے ۔

كتاب الأم 7-183 (ط دار المعرفة) 
میں اہل کوفہ کا ذکرکرتے ہوئے فرماتے ہیں :۔
الشافعي قال: أخبرنا مغيرة عن إبراهيم عن عبد الله قال: بيع الأمة طلاقها
وهم يثبتون مرسل إبراهيم عن عبد الله 
ويروون عنه أنه قال: إذا قلت قال عبد الله فقد حدثني غير واحد من أصحابه 
وهم لا يقولون بقول عبد الله هذا
ويقولون: لا يكون بيع الأمة طلاقها
وهكذا نقول 
ونحتج بحديث «بريرة أن عائشة - رضي الله عنها - اشترتها ولها زوج ثم أعتقتها

باندی کی بیع اُس کی طلاق کے مسئلہ کے ضمن میں امام شافعیؒ نے فرمایا ہے کہ
وہ (یعنی اہل کوفہ) حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے امام ابراہیم نخعیؒ کی مرسل روایت کو ثابت مانتے ہیں
اور ابراہیم نخعیؒ سے روایت کرتے ہیں کہ جب وہ براہ راست یہ کہیں کہ
‘‘ عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا 
تو یہ بات انہوں نے ابن مسعودؓ کے بہت سے شاگردوں سے سُنی ہوتی ہے ۔

امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ لیکن وہ (اہل کوفہ) ابن مسعودؓ کے باندی کی بیع اور طلاق ، کے سلسلہ میں جو قول 
ہے اس پر عمل نہیں کرتے ۔
امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ ہمارا بھی یہی قول ہے ۔ حضرت بریرہؓ کی حدیث وجہ سے ۔۔۔
---------------
امام شافعیؒ  صاف فرماتے ہیں کہ اہل کوفہ اسی قول کی وجہ سے ابراہیم نخعیؒ کی حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت کی ہوئی مرسل روایات کی تصحیح کرتے ہیں ۔ 
اس کے باوجود جو بعض شافعی علماء اس میں عجیب قسم کے احتمالات پیدا کرتے ہیں ۔ 
وہ ناانصافی کرتے ہیں ۔
جہاں تک مسئلہ کا تعلق ہے تو، 
دراصل  اہل کوفہ امام ابوحنیفہؒ اور اُن کے شاگردوں نے حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کے قول کو چھوڑ کر حضرت
 بریرہؓ کی حدیث اور حضرت عمرؓ ، حضرت علیؓ ، حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ ، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ اور حضرت حذیفہؓ  کےاقوال کو اختیار کیا تھا۔ 

اہل کوفہ کی کتاب میں یہ مسئلہ یوں موجود ہے ۔

كتاب الآثار امام ابوحنيفه , برواية محمد بن الحسن الشيبانى میں ہے ۔

محمد قال: أخبرنا أبو حنيفة, عن حماد, عن إبراهيم, عن ابن مسعود رضي الله عنه في المملوكة تباع 
ولها زوج, قال: بيعها طلاقها.

قال محمد: ولسنا نأخذ بهذا, 
ولكنا نأخذ بحديث رسول الله صلى الله عليه وسلم حين اشترت عائشة رضي الله عنها بريرة, فأعتقتها فخيرها رسول الله صلى الله عليه وسلم بين أن تقيم عند زوجها, أو تختار نفسها, فلو كان بيعها طلاقها ما خيرها.
وبلغنا عن عمر, وعلي, وعبد الرحمن بن عوف, وسعد بن أبي وقاص, وحذيفة أنهم لم يجعلوا بيعها طلاقها, 
وهو قول أبي حنيفة رحمه الله.
یعنی حضرت ابن مسعودؓ کا قول نقل کرکے اس کی شرح میں امام محمدؒ فرماتے ہیں کہ ہم اُن کے قول کو 
اختیارنہیں کرتے حضرت بریرہؓ والی حدیث کی وجہ سے ،
اور ہمیں حضرت عمرؓ ، حضرت علیؓ ، حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ ، 
حضرت سعد بن ابی وقاصؓ اور حضرت حذیفہؓ  سے یہ روایت ہے کہ 
 انہوں نے اس کے بیچنے کو طلاق قرار نہیں دیا ۔
اور یہی امام ابوحنیفہؒ کا قول ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی مسئلہ کے سلسلہ میں امام اعمشؒ نے امام ابویوسفؒ سے پوچھا تھا کہ 
تمہارے صاحب (یعنی ابوحنیفہؒ) نے عبد اللہ بن مسعود ؓ کا قول
باندی کی آزادی اس کے حق میں طلاق ہے 
کیوں ترک کر دیا 
ابو یوسفؒ :  اس حدیث کی وجہ سے جو آپ نے ہی روایت کی ہے ۔
اعمشؒ :    ” کونسی حدیث؟
ابویوسفؒ :    آپ نے ابراہیمؒ سے انہوں نے اسودؒ سے ، انہوں نے حضرت عائشہؓ سے
روایت کی ہے کہ بریرۃَؓ    کو جب آزادی حاصل ہوئی تو انہیں اختیار دیا گیا تھا۔
یہ جواب سن کر امام اعمشؒ بولے ’’بے شک ابو حنیفہ تو فقیہ ہیں اور حدیث کے موقع ومحل کو خوب اچھی 
طرح جانتے ہیں اور اس میں بڑا شعور رکھتے ہیں ۔
( ص26اخبار ابی حنيفة واصحابه، الصيمری، ص147 الانتقاء ابن عبدالبر)


Friday 6 July 2018

كتاب الخراج ، امام قاضى ابو يوسف - اردو ترجمه ، مولانا نياز احمد


کتاب الخراج- اردو
  182ھ   المتوفي امام قاضی ابو یوسفؒ
(صاحب امام ابو حنيفة ؒ ) 
اردو ترجمہ و مختصر تخریج - مولانا نیاز احمد اوکاڑوی


Download 14 MB



Saturday 14 April 2018

کیا فقہ حنفی کا مدار صرف حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کی فقہ پر ہے ؟ کیا حضرت عبداللہ بن مسعودؓ ۔۔۔تطبیق کے منسوخ ہونے سے واقف نہیں تھے؟


کیا فقہ حنفی کا مدار صرف حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کی فقہ پر ہے ؟
کیا حضرت عبداللہ بن مسعودؓ ۔۔۔تطبیق کے منسوخ ہونے سے واقف نہیں تھے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ کوئی قاعدہ کلیہ حصر کے ساتھ نہیں ہے کہ کہ فقہ حنفی کا مدار عبداللہ بن مسعودؓ کی فقہ پر ہے ۔بیشک اُن کی اکثر آراء پر ضرور ہے ۔
اسی طرح بعض علماء کو یہ غلط فہمی رہی ہے  کہ شاید  فقہ حنفی ساری ابراہیم نخعیؒ  کی آراء پر مشتمل ہے ۔ 
جیسا کہ شاہ ولی اللہ ؒ کے قول سے محسوس ہوتا ہے ۔ ایسا بھی نہیں ہے ۔
جب صاحب مذہب  امام ابوحنیفہؒ مجتہد ہیں ۔ اور خود اُن کی تصریحات اس بارے میں موجود ہیں  ۔ 
مثلاََ
مشہور روایت جو اُن کے کم ازکم ۶ شاگردوں نے روایت کی ہے کہ جس میں امام صاحبؒ  اپنے اصول بتاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ۔قرآن و سنت کے بعد  وہ صحابہؓ کے قول پر عمل کرتے ہیں ۔اور صحابہؓ کے مختلف اقوال میں سے اختیار کرتے ہیں ۔ اور تابعین ابراہیم ؒ ، شعبیؒ ، حسنؒ ، ابن سیرین ؒ ،عطاءؒ ، سعیدؒ ، وغیرہ   تک بات آئے تو جیسے وہ اجتہاد کرتے ، امام صاحب بھی اجتہاد کرتے ۔
دوسری روایت  میں اپنے علم کا ماخذ  خلیفہ وقت کے سامنے بتاتے ہیں۔۔
أبي حنيفَة قَالَ دخلت على أبي جَعْفَر أَمِير الْمُؤمنِينَ فَقَالَ يَا ابا حنيفَة عَمَّن أخذت الْعلم قلت عَن حَمَّاد عَن ابراهيم عَن أَصْحَاب عمر بن الْخطاب وَعلي بن أبي طَالب وَعبد الله بن مَسْعُود وَعبد الله بن عَبَّاس رَضِي الله عَنْهُم
قَالَ بخ بخ استوثقت مَا شِئْت يَا أَبَا حنيفَة
یعنی ابوحنیفہؒ خلیفہ ابوجعفر کے پاس آئے تو اس نے پوچھا ۔ ابوحنیفہؒ آپ نے کس سے علم حاصل کیا ہے ۔
امام صاحبؒ بولے ۔حماد اور ابراہیم کے واسطہ سے  اصحاب عمرؓ ۔ علیؓ ۔ عبداللہ بن مسعودؓ اور عبداللہ بن عباسؓ  کا علم ۔
اس پروہ متاثر ہوا اور  اس نے تعریف کی ۔
اور ائمہ ثلاثہ کی  کتب احادیث و فقہ انہی اقوال کی تائید کرتے ہیں ۔
بلکہ یہ ۴ صحابہؓ جن کا اوپر نام لیا ہے ۔ یہ بقول شاہ ولی اللہ ؒ ۔۔ کثیر الفتاوی ہونے میں سب سے ممتاز تھے ۔ ان کے علاوہ بھی  فقہ حنفی  میں دوسروں کے نسبت  ہر علاقے کے سب سے زیادہ صحابہؓ کے اقوال وا ٓثار پر عمل کیا جاتا ہے ۔  
یہاں تاریخ تدوین حدیث ، مولانا عبدالرشید نعمانیؒ سے کچھ عبارت ملاحظہ کریں ۔


------------------------------
یہ غلط فہمی کئی حضرات کو رہی  ہے  کہ شاید امام صاحب اور فقہ حنفی صرف حضرت عبداللہؒ کی ہی فقہ پر مشتمل ہے ۔یا
 حضرت علیؓ۔کیونکہ کوفہ کا زیادہ  علم حضرت علیؓ اور حضرت عبداللہ ؓ ہی کا ہے ۔ ایسا اکثری ہے کُلی نہیں ۔
مشہور شافعی محدث محمد بن نصر مروزی ۲۹۴ھ نے بقول ذہبیؒ  ایک کتاب  ہی اسی موضوع پر لکھی ہے کہ وہ مسائل جس میں ابوحنیفہ نے علیؓ اور عبداللہ ؓ سے اختلاف کیا ۔۔۔وصنف كتابا فيما خالف أبو حنيفة عليا وابن مسعود 

مشہور محدث امام اعمشؒ نے بھی ایک موقع پر امام ابویوسفؒ سے پوچھا ۔ تمہارے صاحب (یعنی ابو حنیفہ) نےعبداللہ بن مسعودؓ کا قول کیوں ترک کر دیا ”باندی کی آزادی اس کے حق میں طلا ق ہے “
 امام ابو یوسف نے جواب اس حدیث کی وجہ سے جو آپ نے ہی روایت کی ہے ۔
اعمشؒ بولے کونسی حدیث؟
ابویوسفؒ بولے آپ نے  ابراہیمؒ سے انہوں نے اسودؒ سے ، انہوں نے حضرت عائشہؓ سے 
 روایت کی ہے کہ بریرۃَؓ کو جب آزادی حاصل ہوئی تو انہیں اختیار دیا گیا تھا۔
یہ جواب سن کر امام اعمشؒ بولے ’’بےشک ابوحنیفہ تو فقیہ ہیں ، اور بہت پسند کیا ،۔
دوسری روایت میں ہے کہ امام اعمشؒ نے فرمایا کہ ابو حنیفہ حدیث کے موقع و محل کو خوب اچھی طرح جانتے ہیں اور اس میں بڑا شعور رکھتے ہیں۔
(اخبار ابی حنیفہ واصحابہ، صیمری ۲۶ ، انتقاء ابن عبدالبر ۱۴۷)

یہ تو مناقب و تاریخ کی کتب میں ہے ۔ کتاب الآثار،امام ابوحنیفہ ۔بروایت محمد میں بھی ایسا ہی ہے ۔
محمد قال: أخبرنا أبو حنيفة, عن حماد, عن إبراهيم, عن ابن مسعود رضي الله عنه في المملوكة تباع ولها زوج, قال: بيعها طلاقها.

قال محمد: ولسنا نأخذ بهذا, ولكنا نأخذ بحديث رسول الله صلى الله عليه وسلم حين اشترت عائشة رضي الله عنها بريرة, فأعتقتها فخيرها رسول الله صلى الله عليه وسلم بين أن تقيم عند زوجها, أو تختار نفسها, فلو كان بيعها طلاقها ما خيرها.
وبلغنا عن عمر, وعلي, وعبد الرحمن بن عوف, وسعد بن أبي وقاص, وحذيفة أنهم لم يجعلوا بيعها طلاقها, وهو قول أبي حنيفة رحمه الله.
یعنی حضرت ابن مسعودؓ کا قول نقل کرکے اس کی شرح میں امام محمدؒ فرماتے ہیں کہ ہم اُن کے قول کو اختیارنہیں کرتے حضرت بریرہؓ والی حدیث کی وجہ سے ،
اور ہمیں حضرت عمرؓ ، حضرت علیؓ ، عبد الرحمٰن بن عوفؓ ، سعد بن ابی وقاصؓ اور حذیفہؓ سے یہ روایت پہنچی ہے کہ انہوں نے اس کے بیچنے کو طلاق قرار نہیں دیا ۔

اور یہی امام ابوحنیفہؒ کا قول ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور خاص تطبیق کے مسئلہ میں بھی امام ابوحنیفہؒ نے حضرت عمرؓ ہی کے قول کی وجہ سے حضرت ابن مسعودؓ کے قول پر عمل نہیں کیا ۔

 جیسا کہ کتاب الآثار میں ہے ۔
95 - مُحَمَّدٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو حَنِيفَةَ، عَنْ حَمَّادٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ قَيْسٍ، وَالْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَا: كُنَّا عِنْدَ ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِذْ حَضَرَتِ الصَّلَاةُ، فَقَامَ يُصَلِّي فَقُمْنَا خَلْفَهُ، فَأَقَامَ أَحَدُنَا عَنْ يَمِينِهِ وَالْآخَرُ عَنْ يَسَارِهِ، ثُمَّ قَامَ بَيْنَنَا، فَلَمَّا فَرَغَ، قَالَ: هَكَذَا، اصْنَعُوا إِذَا كُنْتُمْ ثَلَاثَةً. وَكَانَ إِذَا رَكَعَ طَبَّقَ وَصَلَّى بِغَيْرِ أَذَانٍ، وَلَا إِقَامَةٍ، قَالَ: «يُجْزِئُ إِقَامَةُ النَّاسِ حَوْلَنَا»
قَالَ مُحَمَّدٌ: وَلَسْنَا نَأْخُذُ بِقَوْلِ ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ۔۔۔۔۔۔بِقَوْلِهِ فِي التَّطْبِيقِ كَانَ يُطَبِّقُ بَيْنَ يَدَيْهِ إِذَا رَكَعَ، ثُمَّ يَجْعَلَهُمَا بَيْنَ رُكْبَتَيْهِ، وَلَكِنَّا نَرَى أَنْ يَضَعَ الرَّجُلُ رَاحَتَيْهِ عَلَى رُكْبَتَيْهِ، وَيُفَرِّجَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ تَحْتَ الرُّكْبَتَيْنِ۔۔۔۔۔۔ وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رحمه الله تعالى
96 - مُحَمَّدٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو حَنِيفَةَ، عَنْ حَمَّادٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ " جَعَلَهُمَا خَلْفَهُ، وَصَلَّى بَيْنَ أَيْدِيهِمَا، وَكَانَ يَجْعَلُ كَفَّيْهِ عَلَى رُكْبَتَيْهِ، فَقَالَ إبراهيم: صَنِيعُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَحَبُّ إِلَيَّ "
قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهِ نَأْخُذُ، وَهُوَ أَحَبُّ إِلَيْنَا مِنْ صَنِيعِ ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ. وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رحمه الله تعالى
امام محمد ؒ حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ حضرت عمرؓ کا طرز عمل ہمیں حضرت ابن مسعودؓ کے طرز سے زیادہ پسند ہے ۔اور یہی امام ابوحنیفہ کا قول ہے ۔
ان دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ مختلف فیہ مسائل صحابہؓ میں بھی تھے ۔ اور امام ابوحنیفہؒ نے حضرت ابن مسعودؓ کے قول کو کبھی چھوڑا بھی تو اُن سے زیادہ بڑے صحابہؓ حضرت عمرؓ اور عشرہ مبشرہؓ کے قول پر عمل کیا ۔
اور فقہ حنفی کے اصول میں ایسا ہی ہے ۔
اور اختلاف کرنے کا کیا ہی خوب اور قابل اتباع طریقہ ہے کہ یہ قول ہمیں زیادہ پسند ہے ۔
ادھر تک تو بات اس بارے میں تھی کہ فقہ حنفی کا صرف حضرت عبداللہ ؓ کے اقوال ہی پر مدار نہیں ہے ۔
 بلکہ کئی جگہہ انہوں نے اُن سے اختلاف بھی کیا ہے ۔اسی طرح تابعی ابراہیم نخعیؒ سے بھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حضرت عبداللہ ؓ کے بارے میں وضاحت ۔

آپؓ چونکہ مجتہد صحابہ میں سے  تھے اس لئے اجتہادی رائے مختلف  ہو سکتی ہے ۔ 

اور ہر مسئلہ کی تصریح ہونا کتب میں ضروری نہیں ہے کہ فلاں صحابیؓ سے فلاں مسئلہ ثابت کیا جائے ۔

ہاں اس مسئلہ میں تو ایک روایت مشہور کتب میں موجود ہے جس سے مسئلہ کی وضاحت کی جاسکتی ہے اور ائمہ نے کی بھی ہے ۔
 مثلاََ
امام جصاصؒ نے  شرح مختصر طحاوی ۱۔ ۳۹۹   میں فرمایا ہے ۔۔
فإن قيل: إذا جاز أن يخفى على عبد الله بن مسعود رضي الله عنه نسخ التطبيق، مع عموم الحاجة إليه، ومع قرب محله من النبي صلى الله عليه وسلم، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قيل له: إن عبد الله رضي الله عنه لم يخف ذلك عليه من قول النبي صلى الله عليه وسلم،
ولكن لفظ النبي صلى الله عليه وسلم في ذلك ورد محتملا لهذا المعنى، ومحتملا الترخيص دون النسخ؛ لأنهم لما شكوا إليه التطبيق، قال: "استعينوا بالركب"، فحمله عبد الله رضي الله عنه على الرخصة؛ لأن ظاهره يدل على ذلك، واختار هو لنفسه البقاء على التطبيق، إذ كان أشق عليه، فكان عنده أنه أعظم الأجر.
جس کے مفہوم کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے تطبیق پوشیدہ نہیں رہی ہوگی ۔ بس یہ ہے کہ وہ نبی کریمﷺ کے قول مبارک میں احتمال سمجھتے تھے کہ اس سے مراد نسخ نہیں بلکہ رخصت ہے ۔اور قول  مبارک بظاہر اسی بات پر دلالت کرتا ہے ۔
البتہ انہوں نے اپنی ذات کے لئے تطبیق کا انتخاب کیا کہ اس میں مشقت زیادہ ہے ۔تو پھر اجر بھی زیادہ ہے ۔

 علامہ عینیؒ نے عمدۃ القاری میں یہی فرمایا ہے حضرت عبداللہؓ ہر وقت نبی کریمﷺ کے ساتھ رہتے تھے اور یقیناََ اُن سے یہ بات مخفی نہیں رہی ہوگی بس یہ ہے کہ اُن کے اجتہاد میں یہ عمل منسوخ نہیں ہوا 
بلکہ اختیار دے دیا گیا ہے کہ یا تطبیق پر عمل کرلیں یا گھٹنے پکڑنے پر ۔
اورائمہ کے انہی اقوال کی وجہ سے ہی  علماء فرماتے ہیں کہ چونکہ تطبیق میں چونکہ عزیمت ہے اور دوسرے عمل میں 
رخصت تو عبداللہ ؓ اپنے اجتہاد سے اس مسئلہ کو اختیاری سمجھتے ہوئے عزیمت پر عمل کرتے تھے ۔

اس کے اختیاری ہونے کی دلیل مصنف ابن ابی شیبہؒ میں موجود حضرت علیؓ کا قول ہے جس میں انہوں نے فرمایا کہ جب 
رکوع کرو تو اگر چاہو تو گھٹنوں پر ہاتھ رکھ لو ، چاہو تو تطبیق کر لو ۔

2553- حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ فِطْرٍ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ ، عَنْ عَلِيٍّ ، قَالَ : إذَا رَكَعْتَ فَإِنْ شِئْتَ قُلْتَ هَكَذَا وَإِنْ شِئْتَ وَضَعْت يَدَيْكَ عَلَى رُكْبَتَيْكَ ، وَإِنْ شِئْتَ قُلْتَ هَكَذَا. يَعْنِي : طَبَّقْتَ.
مصنف ۲۔۴۳۹
بقول حافظ ابن حجرؒ و علامہ عینیؒ اس اثر کی سند حسن درجہ کی ہے ۔

اور دونوں حفاظ نے فتح الباری اور عمدۃ القاری میں عبداللہؓ کی طرف سے وضاحت کرتے ہوئے پیش کیا ہے ۔

اور انہوں نے یہ بھی فرمایا ہے کہ یہ تطبیق کوئی حرام نہیں ہے ، کیونکہ عبداللہ بن مسعودؓ کے شاگرد جنہوں نے حضرت عبداللہ ؓ کے پیچھے تطبیق والی نماز پڑھی پھر حضرت عمرؓ کے ساتھ  بھی پڑھی تو حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ ہم پہلے ایسا کرتے تھے پھر چھوڑ دیا ۔ اور حضرت عمرؓ نے اُن کو نماز دُہرانے کا نہیں کہا ۔

اور کتاب الآثار میں امام ابوحنیفہؒ اور امام محمدؒ  کا قول بھی ظاہر کرتا ہے کہ  حضرت عمرؓ کا  عمل زیادہ پسندیدہ ہے ۔

اور حضرت علی ؓ اور حضرت ابن مسعودؓ جو کوفہ کے علم کے سب سےبڑے ستون ہیں ۔ان میں سے حضرت علی ؓ کی رائے صاف موجود ہے کہ وہ اس معاملے میں اختیار کے قائل تھے ۔ تو حضرت عبداللہ ؓ کا بھی قول اس معاملے میں اختیار کا ہوگا ۔
جیسا کہ امام جصاصؒ نے شرح مختصر الطحاوی میں ،حافظ ابن حجرؒ نے فتح الباری میں ،اور علامہ عینیؒ نے عمدۃ القاری میں فرمایا ہے ۔
ومحتملا الترخيص دون النسخ (شرح مختصر الطحاوي) ....... فحمله عبد الله رضي الله عنه على الرخصة
وَهُوَ ظَاهِرٌ فِي أَنَّهُ كَانَ يَرَى التَّخْيِيرَ                                       (فتح الباري) 
             (عمدة القاري)  فَهَذَا ظَاهر فِي أَنه، رَضِي الله تَعَالَى عَنهُ، كَانَ يرى التَّخْيِير
واللہ اعلم۔

Wednesday 14 March 2018

المواهب اللطيفة شرح مسند الإمام أبي حنيفة - عابد السندي - ت د. تقي الدين الندوي

 (7-1) المواهب اللطيفة شرح مسند الإمام أبي حنيفة
المواهب اللطيفة في الحرم المكي على مسند الإمام أبي حنيفة من رواية الحصكفي
 (شرح مسند الامام ابي حنيفة برواية الحصكفي650هـ)

الإمام محمد عابد السِّندي الأنصاري 1257هــ
تحقيق: الدكتور تقي الدين النَّدوي
طبع دار النوادر
[ مفهرس / موافق للمطبوع ]
--------------

Read Online 
غلاف   -   مقدمة المحقق
Download - تحميل
غلاف  -  مقدمة المحقق 
  639 KB     - 2 MB
 10 MB     -   13 MB  -   13 MB     13 MB       13 MB      13 MB   - 13 MB

Download all volumes in one-file 90 MB

Monday 12 March 2018

مسند امام اعظم , الحصكفي اور مسند حماد بن ابي حنيفه يعني كتاب الآثار ابي حنيفة بروايت حماد


امام ابوحنیفہؒ کی کتاب الآثار حدیث کی سب سے قدیم اور صحیح کتب میں سے ہے ۔

 موجود طبع شدہ کتب میں اس سے پہلے کی غالباََ صرف صحیفہ ہمام بن منبہؒ ہے ۔
 کتاب الآثار اور موطا امام مالک ؒ کا طرز آپس میں کافی ملتا جلتا ہے ۔

یہ دو بڑے ائمہ کی کتب کئی حوالوں کے علاوہ اس لحاظ سے بھی دوسری کتب سے منفرد ہیں کہ ان کو روایت کرنے والے بھی عظیم فقہاء اور ائمہ ہیں اور کثیر تعداد میں ہیں ۔
 کتاب الآثار کو امام ابو یوسفؒ ، امام محمدؒ ، امام زفرؒ ، امام المقرئ حمزہ بن زیاتؒ ، اور کئی دوسرے ائمہ نے روایت کیا جن کی تفصیل مولانا عبد الرشید نعمانیؒ کے مقدمہ کتاب الآثار میں دیکھی جاسکتی ہے ۔
اسی طرح موطا امام مالک ؒ کو بھی امام یحییؒ ، امام محمد ؒ ، امام ابن القاسمؒ ، امام شافعیؒ کے علاوہ کثیر ائمہ نے روایت کیا ۔
کتاب الآثار کے دو نسخے امام محمد ؒ اور امام ابو یوسفؒ کے دستیاب اور متداول ہیں ۔ 
امام حسن بن زیادؒ کے نسخہ کے مخطوطہ کا ذکر فہارس میں موجود ہے ۔ 

اس کے علاوہ دوسرے نسخے میری معلومات کے مطابق بذات خود فی الحال دستیاب نہیں ہیں ۔

 لیکن امام ابوحنیفہؒ کی مسانید جمع کرنے والے محدثین نے اپنی اسانید سے ان نسخوں کی کئی روایات کو محفوظ کرلیا ہے ۔
اصل نسخہ اور مسند میں روایت شدہ احادیث کے درمیان فنی لحاظ سے یہ فرق ہے کہ اگر صرف سند کی تحقیق کرنی پڑے تو اصل نسخہ میں امام ابوحنیفہؒ سے اوپر کے راویوں کی ہی تحقیق کرنی پڑے گی ۔ جبکہ مسند میں روایت کردہ حدیث کی سند کی جامع مسند سے امام ابوحنیفہؒ تک کے راویوں کو بھی دیکھنا پڑے گا ۔
مثال کے طور پہ کتاب الآثار بروایت حسن بن زیادؒ ابھی چھپی  نہیں ۔ لیکن اس کی سینکڑوں روایات ایک ہی سند سے 
جامع المسانید خوارزمی میں کئی دوسری مسانید  کے حوالے سے مروی ہیں ۔ اور مسند ابن خسرو  میں بھی مروی ہیں ۔ 
مولانا محقق ابو الوفا افغانیؒ فرماتے ہیں کہ مسند حسن بن زیادؒ (یعنی نسخہ کتاب الآثار بروایت حسن) کو جامع المسانید اور ابن خسروؒ نے پورا محفوظ کر لیا ہے ۔

اب اس پر میرے نزدیک اعتماد کیا جاسکتا ہے اور صاحب جامع المسانید اور ابن خسروؒ سے لے کر امام حسن بن زیادؒ تک کی 
سند کی تحقیق کی زیادہ حاجت نہیں ۔
اور امام خوارزمی ؒ صاحب جامع المسانید کے پاس تو مسند حسن بن زیادؒ موجود بھی تھی۔ وہ اس کی روایات 

(وأخرجه) الحسن بن زياد في مسنده

کہہ کر براه راست نقل کرتے ہیں ۔

اور اگر اصل نسخہ دستیاب ہو تو اس کی روایت پھر اور زیادہ معتمد ہو گی ۔
 اسی طرح  نویں صدی ہجری کے بڑے محدث حنبلی عالم ابن الدوالیبی الحنبلی ۸۵۸ھ نے کتاب الآثار بروایت حسن بن زیاد(جس کو بعض مسند الحسن بن زیاد بھی کہتے ہیں) 
اس کتاب سے ۶۰ احادیث ’’ الاحادیث الستون ابی حنیفہ ‘‘ کے عنوان سے روایت اورجمع کی ہیں ۔
    اس کا مخطوطہ بھی موجود ہے  اور علامہ زاہد الکوثریؒ نے امام حسن بن زیاد ؒ کی سوانح ’’ الامتاع ‘‘  میں ان کو نقل بھی کردیا ہے جو طبع ہے ۔ 
اس کی حیثیت کتب احادیث سے جو  زوائد جمع کئے جاتے ہیں اس جیسی ہے ۔ اب چاہے اصل کتاب مفقود ہوجائے لیکن زوائد جمع کرنے والا اگر ثقہ عالم ہے تو اس پر اعتماد لازمی ہے ۔
اسی لئے ہم امام خوارزمیؒ اور امام ابن الدوالیبی الحنبلیؒ پر اعتماد کرتے ہیں ۔ اس کی حیثیت اصل نسخہ جیسی ہی ہے ۔
----------------------------
امام ابوحنیفہ ؒ کے صاحبزادے امام ابن الامام حماد بن ابی حنیفہؒ نے بھی کتاب الآثار کو امام صاحب سے روایت کیا ہے ۔
جس کی شہرت کا یہ عالم ہے کہ دوسرے کئی محدثین کی طرح حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے بھی المعجم المفہرس میں اس کا ذکر

نسخة حماد بن أبي حنيفة عن أبيه  
  
 ۔ کہہ کر کیا ہے ۔ اور امام حماد ؒ تک اپنی سند بھی نقل کی ہے
اور ابن کثیر ؒ نے تفسیر میں اس نسخہ کی روایت   حماد بن أبي حنيفة عن أبيه کہہ کر نقل کی ہے ۔
اس نسخہ کی بھی بہت سی روایات مسانید ابی حنیفہ میں موجود ہیں ۔ 
جامعین مسانید جو بڑے بڑے محدثین ہیں ، ان کی اور حافظ ابن حجرؒ کی سند بھی تقریباََ ایک جیسی ہی ہے ۔ 

امام ابو حنیفہؒ کی مسانید میں سب سے زیادہ مشہور ، مستند ۔۔امام حافظ عبد الله الحارثی البخاریؒ 340ھ کی مسند امام اعظم  ہے 

جس کا اختصار ساتویں صدی ہجری کے عالم حافظ دمیاطی ؒ کے شیخ حافظ موسي بن زكريا الحصكفيؒ  650ھ نے کیا۔
جو کہ بہت مشہور ہے ۔آج کل خصوصاََ اردو میں مطلق مسند امام اعظم بولا جائے تو اس سے یہی مراد لی جاتی ہے ۔
اگرچہ مسند الحصکفیؒ ۔۔۔۔۔۔۔مسند الحارثیؒ کا ہی اختصار ہے لیکن انہوں نے کچھ وہ روایات جو امام حماد بن ابی حنیفہؒ نے 
اپنے والد سے روایت کی ہیں ۔۔۔وہ بھی اس میں لی ہیں ۔
مولانا ابو الوفا افغانی ؒ نے مولانا عبد الرشید نعمانیؒ کو خط میں لکھا کہ ایسی روایات الحصکفی ؒ نے مسند ابن خسرو سے لی ہیں ۔
لیکن یہ خیال تب کیا جا سکتا ہے کہ جب یہ سمجھ لیا جائے کہ امام حمادؒ کا اصل نسخہ مفقود ہے ۔ حالانکہ حافظ ابن حجرؒ ، 
حافظ خوارزمیؒ ، حافظ ابن کثیرؒ وغیرہ اس نسخہ سے واقف ہیں تو حافظ الحصکفیؒ تو ان سے بھی پہلے کے ہیں ۔
 اس لئے زیادہ گمان ہے کہ انہوں نے یہ روایات ۔نسخہ حماد بن ابی حنیفہ عن ابیہ ۔ سے براہ راست نقل کی ہیں ۔

مسند الحصکفیؒ کی اصل مسند ابھی چھپی نہیں ۔ جو چھپی ہوئی ہے وہ مسند حصکفیؒ کو فقہی ابواب پر شیخ حافظ عابد سندیؒ نے مرتب کیا ہے ۔ یہ کتاب چھپی ہوئی ہے ۔
گمان تھاکہ اصل مسندحصکفی دیکھنے سے یہ معلوم ہوسکتا ہےکہ انہوں نے ابن خسروؒ سے لی ہیں یا اصل نسخہ حمادؒ 
سے ۔ پھر یہ گمان قوی سے بڑھ کرکافی حد تک یقین کے درجہ میں ہوگیا ۔

 اسلامی کتب کے مخطوطات کے بڑے ذخائر میں سے ایک ملک ترکی بھی ہے جہاں بڑے قدیم مخطوطات موجود ہیں ۔
  ترکی کا مشہور مکتبہ ہے ۔۔ینی جامع ۔
بالتركية :  Yeni Cami
اس مكتبه میں ایک حدیث کے مجموعہ کا مخطوطہ ہے جو ۷۵۹ھ کا لکھا ہوا ہے ۔ 
اور آٹھویں صدی ہجری کے  حنفی عالم محدث کا ہے ۔
كتاب التيسير في حديث البشير النذير - صلي الله عليه وعلى آله وصحبه وسلم تسليما

اس کے ناسخ عثمان بن محمد بن عثمان الكراكي الانصاري ہیں ۔ 
اور مصنف کا نام ہے ۔
الشيخ الامام المتقن المفنن قاضي القضاه الورع الزاهد العالم العامل
علم الدين ابي داؤد سليمان ابن الشيخ شرف الدين (اوشر بن بلدق) الترکمانی (او الترجمانی) الحنفي 
المعروف بقاضي حماه 
المتوفي 736هـ

حافظ ابن حجرؒ نے درر الکامنہ میں اور حافظ تقی الدین نے طبقات السنیہ میں ان کا مختصر ذکر کیا ہے ۔

 حماة قَضَاء سُلَيْمَان التركماني الْحَنَفِيّ نَشأ بحمص ودرس بهَا ثمَّ ولي 

 مشاركاً فِي الْفُنُون ويدري القراآت مَاتَ فِي ربيع الآخر سنة736 وَكَانَ

طبقات السنیۃ میں ہے

 سليمان بن عبد اللّه القاضى، علم الدّين التّركمانىّ *
قال فى «الدّرر»: نشأ بحمص، و درّس بها، ثم ولى قضاء حماة.
و كان مشاركا فى الفنون،  و برّز فى القراءات .
و مات فى ربيع الآخر، سنة ست و ثلاثين و سبعمائة. رحمه اللّه تعالى.

ان کی یہ کتاب ۔ 

ایک طرح سے جامع الاصول مجد الدین ابن الاثیر الجزریؒ ۶۰۶ھ کے اوپر ایک طرح کا کام ہے ۔ اس میں انہوں نے کچھ ترتیب بدلی ہے اور جامع الاصول میں جو کتب تھیں ۔ موطا ۔ بخاری ۔ مسلم ۔ ابو داود ۔ نسائی ۔ ترمذی ۔ رزین ۔ اس میں مسند امام اعظم کا اضافہ کیا ہے ۔ جو کتاب کے آخر میں ہے ۔اور صفحہ  ۲۷۷ سے شروع ہوتی ہے ۔

 ۔ مسند الامام ابي حنيفة من رواية الحصكفي ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور روایات امام ابوحنیفہ ؒ کے شیوخ کی ترتیب پر ہیں ۔پھر صفحہ ۲۹۷ تک روایات ہیں
اور پھر جلی عنوان ہے ۔

مسند حماد بن ابي حنيفة رحمهما الله عن ابيه

پھر ۔ حماد عن ابیہ ۔ کی سند سے تقریباََ ۳۱ روایات بیان کی ہیں ۔جو مخطوطہ کے آخری ڈھائی صفحات پر ہیں ۔
جن کا عکس نیچے موجود ہے ۔
اس میں مسند حماد بن ابی حنیفہؒ کی پہلی روایت یہ ہے ۔
حماد بن أبي حنيفة، عن أبيه، عن ابن خثيم المكي، عن يوسف بن ماهك، 
صلى الله عليه وسلم حفصة ؓ زوج النبي عن 
 أن امرأة أتتها فقالت: إن زوجي يأتيني مجبية ومستقبلة فكرهته، 
فقالصلي الله عليه وسلم النبيفبلغ ذلك 

((لا بأس إذا كان في صمام واحد)) 


یہ روایت سورۃ بقرہ ۲۲۲،۲۲۳ کی تفسیر میں حافظ ابن کثیرؒ نے اسی طریق سے نقل کی ہے ۔
وقد روي من طريق حماد بن أبي حنيفة , عن أبيه ,عن ابن خثيم .......(تفسیر ابن کثیر)۔

اورمخطوطہ میں  آخری روایت یہ ہے ۔
حماد بن أبي حنيفة، عن أبيه، عن إسماعيل بن أبي خالد، وبيان بن بشر، عن قيس بن أبي حازم قال: 
سمعت جرير بن عبد الله ؓ يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم
((سترون ربكم عز وجل كما ترون هذا القمر ليلة البدر، لا تضامون في رؤيته، 
فانظروا ألا تغلبوا على صلاة قبل طلوع الشمس، وقبل غروبها)).
قال حماد يعني به الغداة والعشي.
اس میں امام حمادبن ابی حنیفہ ؒ نے تشریحی الفاظ بھی بڑھائے ہیں ۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا طرز بھی 
امام ابو یوسف ؒ اور امام محمد ؒ کی طرح تھا۔ یعنی صرف روایت نہیں کیا ۔ بلکہ کتاب میں اضافہ بھی کیا ہے ۔

یہ روایات مسند حصکفی جو چھپی ہوئ ہے جو دراصل ترتیب سندی ہے ۔ اس میں تو موجود ہیں ہی ۔ اور مسند ابن خسرو ؒ میں بھی ہیں ۔
خلاصہ یہ ہے کہ یہ براہ راست الآثار ابی حنیفہ بروایت حماد ۔ یعنی نسخہ حماد بن ابی حنیفہ عن ابیہ ۔ سے نقل کی گئی ہیں ۔ 

ممکن ہے اس کا مخطوطہ بھی کہیں ہو اور کبھی سامنے آجائے ۔

واللہ سبحانہ اعلم ۔