Monday 12 March 2018

مسند امام اعظم , الحصكفي اور مسند حماد بن ابي حنيفه يعني كتاب الآثار ابي حنيفة بروايت حماد


امام ابوحنیفہؒ کی کتاب الآثار حدیث کی سب سے قدیم اور صحیح کتب میں سے ہے ۔

 موجود طبع شدہ کتب میں اس سے پہلے کی غالباََ صرف صحیفہ ہمام بن منبہؒ ہے ۔
 کتاب الآثار اور موطا امام مالک ؒ کا طرز آپس میں کافی ملتا جلتا ہے ۔

یہ دو بڑے ائمہ کی کتب کئی حوالوں کے علاوہ اس لحاظ سے بھی دوسری کتب سے منفرد ہیں کہ ان کو روایت کرنے والے بھی عظیم فقہاء اور ائمہ ہیں اور کثیر تعداد میں ہیں ۔
 کتاب الآثار کو امام ابو یوسفؒ ، امام محمدؒ ، امام زفرؒ ، امام المقرئ حمزہ بن زیاتؒ ، اور کئی دوسرے ائمہ نے روایت کیا جن کی تفصیل مولانا عبد الرشید نعمانیؒ کے مقدمہ کتاب الآثار میں دیکھی جاسکتی ہے ۔
اسی طرح موطا امام مالک ؒ کو بھی امام یحییؒ ، امام محمد ؒ ، امام ابن القاسمؒ ، امام شافعیؒ کے علاوہ کثیر ائمہ نے روایت کیا ۔
کتاب الآثار کے دو نسخے امام محمد ؒ اور امام ابو یوسفؒ کے دستیاب اور متداول ہیں ۔ 
امام حسن بن زیادؒ کے نسخہ کے مخطوطہ کا ذکر فہارس میں موجود ہے ۔ 

اس کے علاوہ دوسرے نسخے میری معلومات کے مطابق بذات خود فی الحال دستیاب نہیں ہیں ۔

 لیکن امام ابوحنیفہؒ کی مسانید جمع کرنے والے محدثین نے اپنی اسانید سے ان نسخوں کی کئی روایات کو محفوظ کرلیا ہے ۔
اصل نسخہ اور مسند میں روایت شدہ احادیث کے درمیان فنی لحاظ سے یہ فرق ہے کہ اگر صرف سند کی تحقیق کرنی پڑے تو اصل نسخہ میں امام ابوحنیفہؒ سے اوپر کے راویوں کی ہی تحقیق کرنی پڑے گی ۔ جبکہ مسند میں روایت کردہ حدیث کی سند کی جامع مسند سے امام ابوحنیفہؒ تک کے راویوں کو بھی دیکھنا پڑے گا ۔
مثال کے طور پہ کتاب الآثار بروایت حسن بن زیادؒ ابھی چھپی  نہیں ۔ لیکن اس کی سینکڑوں روایات ایک ہی سند سے 
جامع المسانید خوارزمی میں کئی دوسری مسانید  کے حوالے سے مروی ہیں ۔ اور مسند ابن خسرو  میں بھی مروی ہیں ۔ 
مولانا محقق ابو الوفا افغانیؒ فرماتے ہیں کہ مسند حسن بن زیادؒ (یعنی نسخہ کتاب الآثار بروایت حسن) کو جامع المسانید اور ابن خسروؒ نے پورا محفوظ کر لیا ہے ۔

اب اس پر میرے نزدیک اعتماد کیا جاسکتا ہے اور صاحب جامع المسانید اور ابن خسروؒ سے لے کر امام حسن بن زیادؒ تک کی 
سند کی تحقیق کی زیادہ حاجت نہیں ۔
اور امام خوارزمی ؒ صاحب جامع المسانید کے پاس تو مسند حسن بن زیادؒ موجود بھی تھی۔ وہ اس کی روایات 

(وأخرجه) الحسن بن زياد في مسنده

کہہ کر براه راست نقل کرتے ہیں ۔

اور اگر اصل نسخہ دستیاب ہو تو اس کی روایت پھر اور زیادہ معتمد ہو گی ۔
 اسی طرح  نویں صدی ہجری کے بڑے محدث حنبلی عالم ابن الدوالیبی الحنبلی ۸۵۸ھ نے کتاب الآثار بروایت حسن بن زیاد(جس کو بعض مسند الحسن بن زیاد بھی کہتے ہیں) 
اس کتاب سے ۶۰ احادیث ’’ الاحادیث الستون ابی حنیفہ ‘‘ کے عنوان سے روایت اورجمع کی ہیں ۔
    اس کا مخطوطہ بھی موجود ہے  اور علامہ زاہد الکوثریؒ نے امام حسن بن زیاد ؒ کی سوانح ’’ الامتاع ‘‘  میں ان کو نقل بھی کردیا ہے جو طبع ہے ۔ 
اس کی حیثیت کتب احادیث سے جو  زوائد جمع کئے جاتے ہیں اس جیسی ہے ۔ اب چاہے اصل کتاب مفقود ہوجائے لیکن زوائد جمع کرنے والا اگر ثقہ عالم ہے تو اس پر اعتماد لازمی ہے ۔
اسی لئے ہم امام خوارزمیؒ اور امام ابن الدوالیبی الحنبلیؒ پر اعتماد کرتے ہیں ۔ اس کی حیثیت اصل نسخہ جیسی ہی ہے ۔
----------------------------
امام ابوحنیفہ ؒ کے صاحبزادے امام ابن الامام حماد بن ابی حنیفہؒ نے بھی کتاب الآثار کو امام صاحب سے روایت کیا ہے ۔
جس کی شہرت کا یہ عالم ہے کہ دوسرے کئی محدثین کی طرح حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے بھی المعجم المفہرس میں اس کا ذکر

نسخة حماد بن أبي حنيفة عن أبيه  
  
 ۔ کہہ کر کیا ہے ۔ اور امام حماد ؒ تک اپنی سند بھی نقل کی ہے
اور ابن کثیر ؒ نے تفسیر میں اس نسخہ کی روایت   حماد بن أبي حنيفة عن أبيه کہہ کر نقل کی ہے ۔
اس نسخہ کی بھی بہت سی روایات مسانید ابی حنیفہ میں موجود ہیں ۔ 
جامعین مسانید جو بڑے بڑے محدثین ہیں ، ان کی اور حافظ ابن حجرؒ کی سند بھی تقریباََ ایک جیسی ہی ہے ۔ 

امام ابو حنیفہؒ کی مسانید میں سب سے زیادہ مشہور ، مستند ۔۔امام حافظ عبد الله الحارثی البخاریؒ 340ھ کی مسند امام اعظم  ہے 

جس کا اختصار ساتویں صدی ہجری کے عالم حافظ دمیاطی ؒ کے شیخ حافظ موسي بن زكريا الحصكفيؒ  650ھ نے کیا۔
جو کہ بہت مشہور ہے ۔آج کل خصوصاََ اردو میں مطلق مسند امام اعظم بولا جائے تو اس سے یہی مراد لی جاتی ہے ۔
اگرچہ مسند الحصکفیؒ ۔۔۔۔۔۔۔مسند الحارثیؒ کا ہی اختصار ہے لیکن انہوں نے کچھ وہ روایات جو امام حماد بن ابی حنیفہؒ نے 
اپنے والد سے روایت کی ہیں ۔۔۔وہ بھی اس میں لی ہیں ۔
مولانا ابو الوفا افغانی ؒ نے مولانا عبد الرشید نعمانیؒ کو خط میں لکھا کہ ایسی روایات الحصکفی ؒ نے مسند ابن خسرو سے لی ہیں ۔
لیکن یہ خیال تب کیا جا سکتا ہے کہ جب یہ سمجھ لیا جائے کہ امام حمادؒ کا اصل نسخہ مفقود ہے ۔ حالانکہ حافظ ابن حجرؒ ، 
حافظ خوارزمیؒ ، حافظ ابن کثیرؒ وغیرہ اس نسخہ سے واقف ہیں تو حافظ الحصکفیؒ تو ان سے بھی پہلے کے ہیں ۔
 اس لئے زیادہ گمان ہے کہ انہوں نے یہ روایات ۔نسخہ حماد بن ابی حنیفہ عن ابیہ ۔ سے براہ راست نقل کی ہیں ۔

مسند الحصکفیؒ کی اصل مسند ابھی چھپی نہیں ۔ جو چھپی ہوئی ہے وہ مسند حصکفیؒ کو فقہی ابواب پر شیخ حافظ عابد سندیؒ نے مرتب کیا ہے ۔ یہ کتاب چھپی ہوئی ہے ۔
گمان تھاکہ اصل مسندحصکفی دیکھنے سے یہ معلوم ہوسکتا ہےکہ انہوں نے ابن خسروؒ سے لی ہیں یا اصل نسخہ حمادؒ 
سے ۔ پھر یہ گمان قوی سے بڑھ کرکافی حد تک یقین کے درجہ میں ہوگیا ۔

 اسلامی کتب کے مخطوطات کے بڑے ذخائر میں سے ایک ملک ترکی بھی ہے جہاں بڑے قدیم مخطوطات موجود ہیں ۔
  ترکی کا مشہور مکتبہ ہے ۔۔ینی جامع ۔
بالتركية :  Yeni Cami
اس مكتبه میں ایک حدیث کے مجموعہ کا مخطوطہ ہے جو ۷۵۹ھ کا لکھا ہوا ہے ۔ 
اور آٹھویں صدی ہجری کے  حنفی عالم محدث کا ہے ۔
كتاب التيسير في حديث البشير النذير - صلي الله عليه وعلى آله وصحبه وسلم تسليما

اس کے ناسخ عثمان بن محمد بن عثمان الكراكي الانصاري ہیں ۔ 
اور مصنف کا نام ہے ۔
الشيخ الامام المتقن المفنن قاضي القضاه الورع الزاهد العالم العامل
علم الدين ابي داؤد سليمان ابن الشيخ شرف الدين (اوشر بن بلدق) الترکمانی (او الترجمانی) الحنفي 
المعروف بقاضي حماه 
المتوفي 736هـ

حافظ ابن حجرؒ نے درر الکامنہ میں اور حافظ تقی الدین نے طبقات السنیہ میں ان کا مختصر ذکر کیا ہے ۔

 حماة قَضَاء سُلَيْمَان التركماني الْحَنَفِيّ نَشأ بحمص ودرس بهَا ثمَّ ولي 

 مشاركاً فِي الْفُنُون ويدري القراآت مَاتَ فِي ربيع الآخر سنة736 وَكَانَ

طبقات السنیۃ میں ہے

 سليمان بن عبد اللّه القاضى، علم الدّين التّركمانىّ *
قال فى «الدّرر»: نشأ بحمص، و درّس بها، ثم ولى قضاء حماة.
و كان مشاركا فى الفنون،  و برّز فى القراءات .
و مات فى ربيع الآخر، سنة ست و ثلاثين و سبعمائة. رحمه اللّه تعالى.

ان کی یہ کتاب ۔ 

ایک طرح سے جامع الاصول مجد الدین ابن الاثیر الجزریؒ ۶۰۶ھ کے اوپر ایک طرح کا کام ہے ۔ اس میں انہوں نے کچھ ترتیب بدلی ہے اور جامع الاصول میں جو کتب تھیں ۔ موطا ۔ بخاری ۔ مسلم ۔ ابو داود ۔ نسائی ۔ ترمذی ۔ رزین ۔ اس میں مسند امام اعظم کا اضافہ کیا ہے ۔ جو کتاب کے آخر میں ہے ۔اور صفحہ  ۲۷۷ سے شروع ہوتی ہے ۔

 ۔ مسند الامام ابي حنيفة من رواية الحصكفي ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور روایات امام ابوحنیفہ ؒ کے شیوخ کی ترتیب پر ہیں ۔پھر صفحہ ۲۹۷ تک روایات ہیں
اور پھر جلی عنوان ہے ۔

مسند حماد بن ابي حنيفة رحمهما الله عن ابيه

پھر ۔ حماد عن ابیہ ۔ کی سند سے تقریباََ ۳۱ روایات بیان کی ہیں ۔جو مخطوطہ کے آخری ڈھائی صفحات پر ہیں ۔
جن کا عکس نیچے موجود ہے ۔
اس میں مسند حماد بن ابی حنیفہؒ کی پہلی روایت یہ ہے ۔
حماد بن أبي حنيفة، عن أبيه، عن ابن خثيم المكي، عن يوسف بن ماهك، 
صلى الله عليه وسلم حفصة ؓ زوج النبي عن 
 أن امرأة أتتها فقالت: إن زوجي يأتيني مجبية ومستقبلة فكرهته، 
فقالصلي الله عليه وسلم النبيفبلغ ذلك 

((لا بأس إذا كان في صمام واحد)) 


یہ روایت سورۃ بقرہ ۲۲۲،۲۲۳ کی تفسیر میں حافظ ابن کثیرؒ نے اسی طریق سے نقل کی ہے ۔
وقد روي من طريق حماد بن أبي حنيفة , عن أبيه ,عن ابن خثيم .......(تفسیر ابن کثیر)۔

اورمخطوطہ میں  آخری روایت یہ ہے ۔
حماد بن أبي حنيفة، عن أبيه، عن إسماعيل بن أبي خالد، وبيان بن بشر، عن قيس بن أبي حازم قال: 
سمعت جرير بن عبد الله ؓ يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم
((سترون ربكم عز وجل كما ترون هذا القمر ليلة البدر، لا تضامون في رؤيته، 
فانظروا ألا تغلبوا على صلاة قبل طلوع الشمس، وقبل غروبها)).
قال حماد يعني به الغداة والعشي.
اس میں امام حمادبن ابی حنیفہ ؒ نے تشریحی الفاظ بھی بڑھائے ہیں ۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا طرز بھی 
امام ابو یوسف ؒ اور امام محمد ؒ کی طرح تھا۔ یعنی صرف روایت نہیں کیا ۔ بلکہ کتاب میں اضافہ بھی کیا ہے ۔

یہ روایات مسند حصکفی جو چھپی ہوئ ہے جو دراصل ترتیب سندی ہے ۔ اس میں تو موجود ہیں ہی ۔ اور مسند ابن خسرو ؒ میں بھی ہیں ۔
خلاصہ یہ ہے کہ یہ براہ راست الآثار ابی حنیفہ بروایت حماد ۔ یعنی نسخہ حماد بن ابی حنیفہ عن ابیہ ۔ سے نقل کی گئی ہیں ۔ 

ممکن ہے اس کا مخطوطہ بھی کہیں ہو اور کبھی سامنے آجائے ۔

واللہ سبحانہ اعلم ۔





14 comments:

  1. سلام کئی اہم کتب آئمہ احناف کی تقریبا ہمہ جہت موضوعات پر انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں اب ، آپ انھیں اپنے بلاگ پر یکجا کرکے اک آئمہ احناف کی تحقیقات و کتب کو موسوعہ کی شکل دے سکتے ہیں ۔آپ کی یہ خدمت مجھ کم علم اور دیگر محقیقین کے لئے اک مشعل راہ بن سکتی ہے ۔
    آج سے آپ کے بلاگ کا لنک بھی اپنے بلاگ کے ساتھ نتھی کر دیا ہے
    رفیق درینہ : احقر عرفان اکبر
    https://toobaa-elibrary.blogspot.com/

    ReplyDelete
  2. اسلام علیکم
    محترم کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ مسند حماد بن امام اعظمکسی دسترس میں ہے یا نہیں

    ReplyDelete
    Replies
    1. https://dorar.uqu.edu.sa/uquui/handle/20.500.12248/114710?mode=full

      درج بالا لنك پر آپ کا بتایا ہوا مخطوط کے 6 صفحات دستیاب ہوئے ہیں
      اس کا نام وہی ہے جو آپ نے بتایا ہے ۔
      أوله : بعد البسملة والحمدلة والصلاة على النبي ... وبعد فهذا كتاب مسند لأبي حنيفة ولابنه حماد رتبه بعض من أصحابه على ترتيب أبواب الفقه تسهيلا للطالبين أخذه بعد روايته الخصفكي عنهما غير مرتب ...

      آخره : ... قال محمد بن خسرو البلخي ... حدثنا أبو حنيفة عن علي

      اور اس کے شروع میں ہی موجود ہے کہ یہ مسند الحصکفی (جس کو ملاعلی قاریؒ نے الخصفکی بتلایا تھا لیکن زیادہ صحیح الحصکفی ہی معلوم ہوتا ہے واللہ اعلم) ۔
      کے غیرمرتب شدہ نسخہ کی تسہیل اور ابواب بندی ہے ۔ جو علامہ عابد سندیؒ سے پہلے کی معلوم ہوتی ہے ۔

      Delete
  3. مجھے ایک مخطوط مرکز جمعۃ الماجد للثقافۃ والتراث دبی ملا ہے جسکا اصل مصدر الفاتح ترکیہ کاحوالہ دیا گیا ہے اور اسی کا ایک نسخہ لجنۃ احیاء المعارف النعمانیہ حیدر آباد دکن میں ہے اور اس کا عنوان ہے (مسندلابی حنیفۃ لابنی حماد رتبہ بعض من اصحابہ علی ترتیب ابواب الفقہ ) میں اس کو یہی سمجھ کر کہ یہ امام حماد کا نسخہ ہے مرتب کررہا ہوں اس کے بارے میں آن جناب کوئی معلومات ہوں تو راہنمائی فرمائیں نوازش واحسانمندی ہوگی والسلام

    ReplyDelete
    Replies
    1. وعليكم السلام ورحمةالله وبركاته.
      مجھے علم نہیں ہے کہ مسند حماد آج کسی کی دسترس میں ہے کہ نہیں ۔
      لیکن میں نے نہیں دیکھا کہ کسی نے اس کو مفقود لکھا ہو ۔ حتیٰ کے بعض کتب جن کے متعلق علماء مفقود لکھ بھی دیتے ہیں ، وہ بھی بعض اوقات بعد میں نکل آتی ہیں ۔جیسے میں نے کل ہی پڑہا کہ اس وقت مسانید امام ابی حنیفہ پر سب سے زیادہ کام کرنے والے شیخ لطیف الرحمٰن بہرائجی کے حوالے سے لکھا گیا کہ امام ابویوسف ؒ کی مشہور کتاب الامالی جس کو لوگ مفقود سمجھتے ہیں ۔ اس کا ایک ٹکڑا علامہ کوثری کے پاس تھا۔ اسی طرح ایک کتاب المنتقی حاکم شہید جو بہت اہم حنفیہ کی کتاب ہے کو لوگ مفقود سمجھتے ہیں ، ایک محقق نے لکھا کہ اس نام کا مخطوطہ ایک فہرست میں انہوں نے دیکھا۔
      مولانا لطیف الرحمٰن بہرائجی نےکچھ اسلامی ملکوں کے کتب خانوں کا دورہ کیا مسانید کی تلاش میں انہوں نے بھی دوسری کچھ اہم کتب تو تلاش کیں لیکن مسند حماد کا ذکر نہں کیا ۔
      اور لجنۃ احیاء المعارف کے مولانا ابوالوفاء افغانیؒ کے دور میں مسانید کی تلاش کچھ کی گئی تھی۔ لیکن انہوں نے مسند حماد کا ذکر نہیں کیا تھا۔
      لیکن مخطوطات بعد میں بھی دریافت ہو سکتے ہیں ۔
      آپ اگر اس کا مخطوطہ مجھے ای میل کرسکیں یا اس کے شروع یا آخر کے کچھ صفحات ہی بھیج سکیں تو میں ان شاء اللہ ضرور بتا سکوں گا کہ یہ کونسی کتاب ہے ۔
      ibneusman3@gmail.com
      جيسے ايك کتاب نیٹ اور شاملہ میں موجود ہے
      الجزء الرابع من فضائل أبي حنيفة وأخباره ومناقبه
      کے نام سے ہے ،۴، یا ۵ احادیث کا جز ہے ۔
      جس کو فضائل ابی حنیفہ ابی العوام کا حصہ کہا جارہا ہے ۔
      حالانکہ وہ بہت بعد کی ہے اور میری تحقیق میں حافظ ذہبی کا ہے ۔

      Delete
  4. اسلام علیکم ۔ امام حماد والا نسخہ میں نے ایڈٹ کرلیا ھے اس کا ایک نسخہ ام القرآ یونیورسٹی سعودیہ میں بھی موجود ھے ۔ اور حصکفی کے تینوں ننسخوں کی تخریج بھی کی ھے 1 شرح ملاعلی قاری 2 مطبوعہ الادب مصر 3 مطبعہ بشری کراچی اور امام حماد والے نسخے ۔یں احادیث ان سے زیادہ اور مختلف بھی ہیں والسلام ی

    ReplyDelete
  5. ایک مخطوط ملا ھے امام حصکفی اور عابد سندھی والے نسخے کا اسکا موازنہ جاری ھے

    ReplyDelete
  6. اگر کسی صاحب کے دسترس میں حصکفی والا نسخہ جو مصر سے طبع ھوا ھے اور مکتبہ شاملہ میں شامل ھے اس کا پی ڈی ایف معلوم ھو تو برائے کرم لنک شیئر کیجئے

    ReplyDelete
  7. الکافی لحاکم الشھید رحمہ اللہ کے چار نسخے مل گئے ہیں ان پر کام جاری ہے

    ReplyDelete
  8. عبد اللہ حارثی کا جو نسخہ موجود ہے انہوں نے وہ خود مرتب کیا ہے ؟یا امام صاحب کہ کسی شاگرد کا لکھا ہوا ہے

    ReplyDelete
    Replies
    1. امام صاحب کے شاگردوں نے امام صاحب سے اُن کی کتاب الآثار کو روایت کیا ہے ۔
      امام عبد اللہ حارثی ؒ کی کتاب مسند امام اعظم بلاشبہ ان کی اپنی مرتب کردہ ہے ۔
      مسند امام ابوحنیفہ کے عنوان سے جتنی بھی کتب ہیں وہ بعد کے ثقہ محدثین نے ہی مرتب کی ہیں ۔
      البتہ ان میں موجود اکثر روایات کتاب الآثار کے ہی مختلف نسخوں کی ہیں ۔

      Delete
    2. ان کے ایک شاگرد اور اپنے وقت کے بڑے محدث ابو القاسم النحاس نے مرتب کیا تھا

      Delete
  9. مسند امام اعظم للحارثی کی نئی تدوین کررھا ھوں جس میں مطبوعہ محقق بھرائچی اور محقق السیوطی کو سامنے رکھا ھے ۔

    ReplyDelete
  10. الحمد للہ مسند امام اعظم للحارثی کی تدوین وترقیم جدید کا ایک مرحلہ مکمل ھوا ھے ۔ اس میں کوشش کی ہے کہ سابقہ دونوں نسخوں کی ترقیم بھی شامل کردی ہے گویا تین ترقیمیں یک جا کردی ہیں پہلی ترقیم علامہ ابو محمد السیوطی دوسری مولانا لطیف الرحمن بھرائچی قاسمی کی اور تیسری بندہ مفتی رشید کے ھے ۔ اس میں شرح ملاعلی قاری ۔ اور تخریج احادیث شامل کردی گئی ھے

    ReplyDelete